خادم کو ان کی خدمت میں روانہ کیا اور یہ پیغام بھیجا کہ نماز آپ پر فرض ہے، نہ پڑھنے کی کیا وجہ ہے ، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر شاہ صاحب یہ جواب دیں کہ میں نماز پڑھتا ہوں تو یہ کہنا کہ نماز کے وقت اولیائے کرام کے ہر وجود پر خواہ وہ گھاس اور پتیوں کی طرح کثیرالتعداد ہوں نماز واجب ہے، کسی ایک دو کے ادا کرنے سے دوسرے سے ساقط نہ ہوگی، خادم نے جا کر یہ ساری بات کہہ دی، شاہ عبد الشکور نے کہا کہ شاہ صاحب جانتے ہیں کہ میں نماز پڑھ لیتا ہوں ، خادم نے شاہ صاحب کی یہ بات دُہرائی کہ اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کو اس کی قوت بخشی ہے کہ ان کے ایک وجود میں اشخاص متعددہ کا وجود ظاہر ہو، لیکن اس کے باوجود بھی ان میں سے ہر وجود پر علیحدہ نماز فرض ہوگی، اور کسی ایک کے ادا کرلینے سے دوسرے کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگی، ’’بحرِ زخار‘‘ میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی ولی کو ستر ہزار قالب عطا فرمائے تو ایک نماز سے فرض ادا نہ ہوگا بلکہ ہر وجود اور ہر قالب پر نماز اسی طرح فرضِ عین اور علیحدہ علیحدہ واجب ہوگی۔ شاہ عبد الشکور پر یہ بات سن کر عجب حال اور وجد طاری ہوا، تین شبانہ روز گلی گلی، کوچہ کوچہ ایک سرخوشی و سرمستی کی کیفیت میں گھومتے رہے اور بار بار یہ کہتے(وے نہ کہیں تو کہے کون، وے نہ کہیں تو کہے کون) یعنی ایسی بات وہ نہ کہیں گے تواور کون کہے گا۔(۱)
سنت کے مطابق نکاح کی پہلی مثال
سید شاہ علم اللہؒ نے خاندانی معاملات و تعلقات اور نکاح، ولیمہ، عقیقہ وغیرہ میں بھی رسم و رواج اور دستور کے برعکس احیاء سنت پر عمل کیا اور کسی ملامت کی پرواہ نہ کی اور باوجود اس کے کہ ہندوستان کے بڑے بڑے علمی و دینی گھرانوں میں بھی یہ رسوم و خاندانی روایات گھر کر چکی تھیں اور بڑے بڑے اہلِ علم و اہلِ زہد بھی اس کو گوارا کر رہے تھے، یا فتنہ و انتشار کے خوف اور کسی وقتی مصلحت کی وجہ سے چشم پوشی سے کام
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ