یہ ارشادات و ملفوظات اور حقائق و معارف ایک ایسے عالمِ باعمل، عارف باللہ اور شیخ وقت کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جس کی پوری زندگی قال سے زیادہ حال تھی اور جس کی میزان اعتدال (سنت و شریعت) صحیح و سقیم، اصل و نقل اور جوہر و عرض میں خوب تمیز کرتی تھی اور جادۂ شریعت و سنت سے سرِ مو انحراف بھی اس کو قبول نہ تھا۔
سنت کا غایت درجہ اہتمام
ان ملفوظات کے مرتب اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید الاضحی کے روز آفتاب نکلنے کے بعد حضرت سید شاہ علم اللہؒ اپنے مکان کی طرف روانہ ہوئے، یہ فقیر بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوا، جب دروازہ کے قریب پہنچے تو رخصت ہونے کے لئے فرمایا: السلام علیکم، اس فقیر نے سلام کے جواب کے ساتھ از راہِ تواضع اپنا سر بھی خفیف سا خم کردیا، لیکن یہ بھی برداشت نہ ہوا، فرمایا: کہ سر خم کرنا اچھا نہیں ہے، اور خواص کو اس عمل سے بالکل اجتناب کرنا چاہئے، جس میں عوام الناس بغیر سند و دلیلِ شرعی کے گرفتار ہیں ۔
عید الاضحی کے خطبہ کے بعد حاضرین سے متوجہ ہو کر فرمایا کہ خطبہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں و ہ سمجھ میں آئیں ؟ پھر ضروری مسائل مختصر بیان کیے اور مسجد سے اٹھ کر باہر تشریف لائے مسجد کے شمال مشرقی گوشہ میں (۱)جہاں ان کے فرزند سید ابوحنیفہؒ کی قبر تھی وہاں کھڑے ہو کر کچھ دیر فاتحہ میں مشغول رہے اور اس کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت ایک شخص عقیدت مندانہ ملاقات کو حاضر ہوا، اس کی مونچھیں بہت دراز تھیں ، آپ نے ایک دوست سے قینچی طلب فرمائی، جب قینچی آگئی تو اس کی مونچھوں کو ہاتھ میں لے کر فرمایا: مونچھیں ترشوانے کا فائدہ معلوم ہے؟ اس نے
------------------------------
(۱) ایک مربع چبوترہ پر دو قبریں ہیں ۔ ایک مذکورہ بالا بزرگ سید ابو حنیفہؒ کی ، دوسری حضرت سید احمد شہیدؒ کے والد ماجد سید محمد عرفان بن سید محمد نورؒ کی۔