اس کے بعد فرمایا کہ یہ مقام فنا فی اللہ کا ہے اور اکثر اولیاء کو یہی نصیب ہوتا ہے، ولایتِ خاصہ اسی کو کہتے ہیں ۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی لوہا آگ کی بھٹی میں سُرخ ہونے کے بعد خود کو آگ کہنے لگے، حالانکہ فی الحقیقت وہ آگ نہیں ہے، لیکن اس حال میں وہ اپنے کو آگ سمجھنے میں معذور ضرور ہے، البتہ جب کسی کو حق تعالی محض اپنے فضل و کرم اور متابعتِ انبیاء صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین کی برکت سے اس مقام سے ترقی نصیب فرماتا ہے اور امرِالٰہی اور متابعتِ حضرت رسالت پناہی کے مطابق وہ نورِ الہی اور نورِ محمدی دونوں کا مرتبہ و مقام سمجھنے لگتا ہے، تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان تمام موجودات کی بقاء حق سے ہے اور وہ خود اس کی بقا سے باقی اور اس کی قدرت سے موجود ہے، اور کائنات کاہر ذرہ اس سے وابستہ اور مربوط ہے، اب بقاباللہ کا مرتبہ اس کو حاصل ہوجاتا ہے اور عارفین کاکمال اسی مقام میں ہے۔
جذب و سلوک
جذب و سلوک یا تلوین و تمکین کا ذکر تصوف کی کتابوں میں بار بار آتا اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، سید شاہ علم اللہؒ نے بہت مختصر الفاظ میں اس کی واضح تشریح کی ہے اور دونوں کے کیفیات و درجات کو بیان کیا ہے، فرماتے ہیں :
’’تلوین کے ساتھ دو چیزیں اور ہیں ، ابن الوقت اور سکر، اسی طرح تمکین کے ساتھ بھی دو چیزیں ہیں ، ابو الوقت اور صحو۔ اول الذکر طریق کا سالک وقت کا پابند اور حال کا محتاج ہوتا ہے، جب کوئی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے، اس سے مغلوب ہوجا تا ہے اور بے خودی میں ڈوب جاتا ہے۔ ابو الوقت اور صاحبِ صحو، صاحب ِ وقت ہوتا ہے، وہ کیفیات اور حال کا پابند نہیں ہوتا، جس وقت چاہتا ہے کیفیت اس پر غالب ہوجاتی ہے اور جس