پہلا سفرِ حج
سید شاہ علم اللہؒ کا پہلا سفرِ حج جہاں تک معلومات ہیں ۱۰۷۵ھ میں ہوا، اس سفر میں ان کے ہمراہ ۲۲؍آدمی تھے، ’’زاد و راحلہ‘‘ سے بے نیاز اور محض فضل الٰہی کے بھروسہ پر یہ قافلہ آمادۂ سفر ہوا، روانگی کے وقت ایک مخلص نے ایک معمولی رقم پیش کی اس کو بھی گھر بھجوادیا، اور اللہ کا نام لے کر یہ قافلہ شوق و ذوق کے ساتھ پیادہ پا اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوگیا، ساحـلِ سمندر پر پہنچنے کے بعد (جو غالباً سورت کی بندرگاہ تھی ) جہاز کے امیر البحر، ملّاح اور دوسرے ذمہ داروں نے شاید ان کے اخلاقِ کریمانہ اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر بلا معاوضہ سب کو سوار کرلینے کی پیش کش کی، لیکن اللہ تعالی نے کہیں سے انتظام فرمادیا اور سید شاہ علم اللہؒ نے پہلے ۲۲؍ روپیہ فی کس ادا کردئیے، اس کے بعد جہاز پر چڑھے۔
پورے سفر میں (اور دورانِ قیام میں بھی ) اسی طرح غیب سے انتظامات ہوتے رہے اور سب لوگ بعافیت حجاز پہنچ گئے، مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد مدینہ طیبہ کا قصد کیا، لیکن یہ سوچ کر کہ اس مقدس سرزمین پر جس کی قسمت رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم سے بار بار جاگی ہے، جوتے پہن کر چلنا خلافِ ادب اور آئینِ محبت کے منافی ہے، مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ تک پورا سفر ننگے پیر طے کیا۔(۱)
جب مدینہ منورہ کے قریب پہونچے اور گنبدِ خضراء کی ایک جھلک نظر آئی تو بیساختہ یہ شعر زبان پر جاری ہوگیا، ؎
دنت عن ناظری تلک الخیام
علی سکانہا منی السلام
------------------------------
(۱) مہر صاحب نے ‘‘سید احمد شہید’’ میں لکھا ہے کہ رائے بریلی سے سورت تک بھی ادباً انھوں نے ننگے پاؤں سفر کیا لیکن تذکرۃ الابرار میں رائے بریلی سے سورت تک (یا جو بھی بندرگاہ رہی ہو) ‘‘پیادہ پا’’ کا ذکر ہے ‘‘برہنہ پا’’ کا نہیں ۔ البتہ اس کی صراحت موجود ہے کہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک کا سفر ننگے پیر کیا گیا۔