قسادات جنجیر و سادات بیانہ و سادات بداؤں و چندیں سادات دیگر کہ از حادثہ چنگیز خاں ملعون دریں دیار آمدہ بودند و ہر یکے در صحت نسب و بزرگی عدیم المثال بودند و بکمال تقوی و تدین آراستہ برینہمہ بر صدر حیات بودند۔‘‘
(چنانچہ سادات میں سے کہ بزرگانِ امت کے سرتاج ہیں ، دارالسلطنت دہلی کے شیخ الاسلام قطب الدین جو بدایوں کے قاضیوں کے جد بزرگوار ہیں اور سید منتخب الدین ، سید جلال الدین (فرزندِ سید مبارک) سید عزیز الدین و سید معین الدین (سامانہ) نیز گردیزی سادات (جو سید چھجو کے اجداد ہیں ) اسی طرح کیتھل کے ساداتِ عظام و ساداتِ جنجر و ساداتِ بیانہ و سادات بدایوں اور دوسرے متعدد سادات کرام جو چنگیز خان ملعون کے حادثہ کی وجہ سے اس ملک میں تشریف لائے تھے، ان میں سے ہر ایک صحیح النسبی اور عالی حسبی میں بے نظیر اور کمالِ تقوی و تدین سے آراستہ رونق بخش وجود تھا۔)
سید قطب الدین محمد الحسنی کے تینوں فرزند اپنے اپنے وقت میں اجلۂ علماء و مشائخ میں شمار کیے جاتے تھے اور ان میں سے ہر ایک ارشاد و ہدایت اور اصلاح و تربیت میں اپنے نامور والد کا حقیقی جانشین اور علماء و مشائخ اور علم نواز سلاطین دونوں میں مقبول و محبوب تھا۔
امیر سید نظام الدین
امیر سید نظام الدین کا ذکر اوپر بار بار گزرا ہے۔ وہ تمام معرکوں میں اپنے والد کے دوش بدوش بلکہ پیش پیش رہے، اور ان کے بعد کڑے میں ان کے جانشین ہوئے۔ حضرت شاہ علم اللہؒ ان ہی کی اولاد میں ہیں ، ان کی نسل میں جتنے اولیاء و علماء