چاہئیں ، باطن تو بلا کم و کاست، ظاہر کا بھی نصف حصہ، بقیہ نصف حقوقِ خلق کی ادائیگی کیلئے لیکن اس نصفِ آخر میں بھی ہر لمحہ اور ہر لحظہ اوامرِ الہی کو مد نظر رکھنا چاہئے، اس وقت یہ نصفِ آخر بھی اللہ تعالی ہی کے لئے ہو جائے گا۔ (آیت )بے شک ہر چیز اسی کی طرف لوٹنے والی ہے، بس اسی کی عبادت کرو، اسی پر بھروسہ کرو، اور تمھارا رب اس سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔)
بیعت و صحبت کی ضرورت
بیعت و صحبت کی ضرورت اور امام و رہبر کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک عجیب اور آسان مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے لئے محض مراسلت یا محض مطالعہ کافی نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ خود اپنے مطالعہ و تحقیق یا اپنے مجوزہ مجاہدہ و ریاضت کے ذریعہ وصول الی اللہ کے طالب ہیں ، ان کی مثال اس وضو کرنے والے کی سی ہے، جو باوجود پاک و صاف ہونے اور جذبہ صادق کے امام کا محتاج ہے، اور کسی حال میں اس سے مستغنی نہیں ۔
’’چوں ایں ہمہ کرد مثال اور مثل کسے بود کہ طہارت اکنوں او را با امام حاجت بود کہ با اقتدا کند، در کلام مجید فرمودہ است ’’اتقوا اﷲ و کونوا مع الصادقین۔‘‘
(ان سب ریاضتوں و مجاہدات کے بعد بھی اس کی مثال اس شخص کی سی ہوگی جو اپنی طہارت کے شرائط تو پورے کر چکا ہے لیکن اب بھی اس کو امام کی ضرورت ہے جس کی اقتدا کرسکے، اسی لئے کلام مجید میں آیا ہے(اللہ سے ڈرو اور سچے اور مخلص بندوں کے ساتھ رہو)۔