کی، جب رخصت ہو کر وہاں سے تشریف لے گئے تو خادموں اور شاگردوں نے عرض کیا کہ جناب نے شاہ علم اللہؒ کے اعتراض کو اس قدر جلد قبول کرلیا، ہم خدام بڑے محجوب ہوئے، حضرت ملک العلماء و یکتائے زمانہ ہیں ، بہت سی توجیہات فرماسکتے تھے، شاہ پیر محمد صاحب کہ علماء راسخین و اولیائے کاملین میں سے تھے اور نفسانیت، انانیت کا کانٹا دل سے نکل چکا تھا، رفقاء سے فرمایا کہ سید صاحب کا ارشاد بالکل حق اور سنت کے موافق تھا، اس بات میں سینہ زوری کرنے سے حق بات کا انکار اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کا خطرہ تھا۔‘‘(۱)
ملا جیون سے ایک تاریخی گفتگو
مولانا شیخ احمد‘ صاحبِ ’’تفسیرات احمدیہ و نور الانوار‘‘ سے بھی (جن کو عام طور پر ملا جیون کے نام سے عربی کا ہر طالب علم جانتا ہے) ایک ملاقات کے دوران سید شاہ علم اللہؒ سے سماع و غنا کے مسئلہ پر اہم علمی گفتگو ہوئی اور ملا صاحبؒ نے ان کی سب باتیں تسلیم کیں اور خاموشی اختیار کی، اصل واقعہ کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
’’ایک مرتبہ سید شاہ علم اللہ ؒ کا قصبہ امیٹھی سے گزر ہوا چونکہ قصبہ علماء کا ایک بڑا مرکز رہا ہے اس لئے اس خیال سے کہ چونکہ ان کا عمل زیادہ تر عزیمت پر ہے اور عام طور لوگ معاملات اور بیع و شرا میں مکروہات و محرمات تک سے اجتناب نہیں کرتے اور ایسے بہت کم ہیں جو مباح پر عامل ہوں ، مزید یہ کہ اس پر اصرار بھی کرتے ہیں ، انھوں نے اپنے رفقاء کو سختی سے تاکید کردی کہ وہ
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہیدؒ