ترقی اور قوت پر تھی، اور رقتِ قلب بہت بڑھ گئی تھی، اکثر فرماتے تھے کہ کوئی عمل اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے قابل تو نہیں ہے لیکن بعض بشارتوں کی بنا پر اللہ کی رحمت کی ضرور امید ہوتی ہے۔
۶؍ربیع الاول ۱۱۴۸ھ کو چہار شنبہ کے دن انتقال کیا اور نصیر آباد میں اپنے نانا حضرت شاہ داؤد (برادرِ حقیقی حضرت شاہ علم اللہؒ) کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔(۱)
سید محمد سنا بن سید محمد ہدیؒ
سید محمد سنا حضرت سید شاہ علم اللہؒ کی وفات سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔
صاحب اعلام الہدی لکھتے ہیں کہ جب ان کی ولادت ہوئی تو نصیر آباد سے حجام سید شاہ علم اللہؒ کو خوش خبری دینے کے لئے تکیہ (رائے بریلی) پہنچا، سید شاہ علم اللہؒ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’آئے میاں محمد سنا‘‘ کمالِ مسرت میں بچہ کی ٹوپی بنانے کے لئے اپنے دامن کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر اسی وقت نائی کو دیا، دوسرے الفاظ میں گویا اسی وقت خرقہ عنایت فرمایا، مولانا سید نعمان مؤلف ’’اعلام الہدی‘‘ لکھتے ہیں کہ چچا فرماتے تھے کہ مجھے حضرت (سید شاہ علم اللہؒ) کی بعض باتیں باوجود کم عمری کے خوب یاد ہیں ، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں اور میری بعض بہنیں حضرت کے پاس بیٹھے تھے، کچھ دیر کے بعد سب اُٹھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا اور تھوڑی دیر کے بعد اجازت مانگی، حضرت بے حد خوش ہوئے اور فرمایا کہ سب بچے بلا اجازت لئے چلے گئے مگر اس بچہ نے اجازت مانگی، بڑا اچھا اور سمجھدار بچہ ہے، پھر میرے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
علومِ ضروریہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ اپنے والد کی جاگیر کا انتظام ان کے سپرد رہا اور کچھ مدت شاہی ملازمت اور فن سپہ گری میں گزری، آخر میں اپنے عم
------------------------------
(۱) اعلام الہدی وسیرت السادات۔