یافت ہے، چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق صنے فرمایا ہے: ’’العجز عن در ک الإدراک إدراک‘‘ فقیر نے پوچھا اس معاملہ میں خواص و عوام میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ بہت بڑا فرق ہے، اس لئے کہ عوام اپنے عجز سے ناواقف ہیں ، بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا وجود اور قیام کس سے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خود سے دیکھتے ہیں ، خود سے بولتے ہیں ، وہ ہر چیز اپنے ہی سے سمجھتے ہیں ، ایسے لوگ مثل فرعون کے ہیں ، خواص دید و شنید، گفتار و کردار، گوشت پوست غرض ہر چیز کو خدا سے سمجھتے ہیں اور تمام اعمال و احوال میں اپنے کو عاجز و درماندہ محسوس کرتے ہیں ۔
اولیاء کی علامت
ایک مرتبہ فقیر نے دریافت کیا کہ اولیاء کی پہچان کیا ہے؟ آپ نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی: ’’إن أولیاؤہ إلا المتقون و لکن أکثر الناس لا یعلمون‘‘ (نہیں ہیں اس کے دوست مگر متقی اور اس کا پاس و لحاظ کرنے والے، لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے)۔
فنا و بقا
ایک روز اشراق کی نماز کے بعد خواجہ حافظ کا شعر ارشاد فرمایا ؎
عکس روئے تو چو در آئینۂ جام افتاد
عارف از خندۂ مے در طمع خام افتاد
پھر فرمایا کہ اس فقیر کے خیال میں عارف کی جگہ طالب کا لفظ زیادہ موزوں ہے، اس لئے جو شخص طمع خام کا شکار ہو اس کو عارف کیسے کہیں گے بلکہ یہ تو اس متوسط درجہ کے طالب و سالک کا مقام ہے جو نورِ محمدیؐ کی حقیقت تک پہنچنے کے بعد غلبۂ محبت کی وجہ سے اس کو نورِ الہی سمجھ لیتا ہے اور مخلوقات کو معدوم خیال کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ جوکچھ ’’بود‘‘ نظر آتا ہے وہ در حقیقت نابود اور غیر موجود ہے۔