ہدایت اللہ علم و فضل اور کمالات ظاہری و باطنی میں بلند پایہ رکھتے تھے۔
دیوان سید خواجہ احمد
اس خاندان کی نامور شخصیتوں میں دیوان سید خواجہ احمد کا نام نامی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو اپنے علم و فضل، سلوک و معرفت دونوں میں دستگاہِ کامل رکھتے تھے۔
دیوان سید خواجہ احمد نے ابتدائی تعلیم نصیر آباد میں حاصل کی، اس کے بعد الٰہ آباد جا کر شیخ محب اللہ الہ آبادی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ایک عرصہ تک ان کی خدمت میں رہ کر معقولات و منقولات کی تکمیل کی، اس کے بعد نصیر آباد آکر درس و تدریس اور افتاو افادہ کا سلسلہ شروع کیا، آخر میں جذبِ الہی کا غلبہ ہوا، اور بے چینی بڑھنے لگی تو حضرت سید آدم بنوری (جن کا آفتاب رشدو ہدایت اس وقت عروج پر تھا) کی تلاش میں نکلے اور گوالیار میں ان کا دامن پکڑا اور ان کی ہجرت سے قبل خلافت سے سرفراز ہوئے۔(۱)
حضرت دیوان خواجہ احمد صاحب کے حالات کا بڑا ذخیرہ اس وقت موجود نہیں ، لیکن جو کچھ ہمارے سامنے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ساری زندگی درس و افادہ، عبادت و ذکر اور مراقبہ میں گزری، شریعت پر استقامت، کمال زہد و احتیاط اور اس علم و معرفت کے ساتھ کرامات و خوارق کا بھی اس کثرت سے صدور ہوتا تھا جو ان کے درجہ کے کسی عالم و شیخ سے سُننے میں نہیں آیا۔
متعدد کتابیں تصنیف کیں ، لیکن زمانہ کی دستبرد نے ان کو باقی نہ رکھا، مولانا سید عبد الحیؒ کے کتب خانہ میں ان کے رسائل کا ایک مختصر مجموعہ اب بھی محفوظ ہے جس میں ایک رسالہ حرمت غنا پر ہے اور ایک آدھ دوسرے علوم و معارف پر مشتمل ہے، رسالہ کے پہلے صفحہ پر جامیؒ کے کچھ اشعار درج ہیں ، جن سے ان کے ذہن، مزاج اور
------------------------------
(۱) نزہۃ الخواطر ج / ۶،ص/۳۷ و ۳۸، و دیگر مآخذ۔