نصیر آباد کا ایک چودھری اور ذی حیثیت شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تھا، سید شاہ علم اللہؒ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چونکہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے اس لئے اس شخص کو یہ سزا ملنی چاہئے اور اگر قوت و اختیار ہو تو اس پر عمل ہونا چاہئے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے طور پر اس کی تیاری شروع کردی، اپنے صاحبزادے سید آیت اللہ کو اس کو گرفتار کر کے لانے کے لئے بھیجا اور وہ اس کو بڑے معرکے کے بعد کشاں کشاں سید شاہ علم اللہؒ کی خدمت میں لائے، سید شاہ علم اللہؒ نے اس سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اگر مرتد دوبارہ اسلام میں واپس آنا پسند نہ کرے تو اس کی سزا شریعتِ اسلامی میں قتل ہے، اس کی قسمت میں اسلام لانا لکھا تھا اس نے اسلام قبول کرلیا، اس کی برادری کے لوگ جن کی بڑی تعداد تھی سید شاہ علم اللہؒ کے دشمن ہوگئے اور اس کی کوشش کی کہ جب شاہ صاحب تہجد کے وقت مسجد میں آنے کے لئے باہر آئیں اس وقت ان کی آنکھ زخمی کردی جائے لیکن ’’لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من أمر اﷲ‘‘ کے مطابق وہ حفاظت اور سلامتی کے ساتھ مسجد میں آئے اور کسی کی نظر ان پر نہ پڑسکی، اور قرآن مجید کی اس آیت کے بموجب ’’لونشاء لطمسنا علی أعینہم فاستبقوا الصراط فأنّی یبصرون۔ و لو نشاء لمسخناہم علی مکانتہم فما استطاعوا مضیا ولا یرجعون۔‘‘ خود ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی، وہ سب خائب و خاسر واپس ہوئے اور آئندہ بھی اس کی جرأت نہ کی۔(۱)
شاہ صاحب کے دشمن اور ان کا انجام
اللہ تعالی کے مخلص و مقبول بندوں کی ایذا رسانی اور ان سے عداوت و بغض ان چیزوں میں ہے جن کا نتیجہ بہت جلد ظاہر ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک رند مشرب اور
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ و تذکرۃ الابرارباختصار