مقرر کیا، والد کی وفات کے بعد تیس سال تک مسندِ ارشاد و اصلاح کو زینت بخشی اور بہت سے اہل ہمت و اہل طلب ان سے فیض یاب ہوئے۔
مولانا سید نعمان لکھتے ہیں کہ میں نے ان کے مرید محمد یونسؒ سے ملاقات کی اور ان کو بہت قوی النسبت اور شریعت و طریقت میں ثابت قدم پایا۔
۱۲؍رمضان المبارک ۱۱۴۶ھ کو جمعہ کے دن انتقال فرمایا، استحضار کے وقت زبان پر جزاک اللہ جاری تھا، اسی حال میں جان‘ جان آفریں کے سپرد کی۔
دو نامور فرزند یادگار چھوڑے، ایک سید شاہ ابو سعیدؒ (م:۱۱۹۳ھ) جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے خاص رجال میں تھے، دوسرے سید محمد معینؒ۔
سید محمد صابر بن شاہ آیت اللہؒ
سید محمد ضیاء کے بعد سید محمد صابر ان کے جانشین ہوئے، اور یہ چشمۂ رشد و ہدایت ‘ تشنگانِ معرفت کو اسی فیاضی کے ساتھ سیراب کرتا رہا۔ ابتداء میں دہلی اور سرہند تشریف لے گئے، اور خواجہ محمد معصوم کے صاحبزادہ خواجہ محمد صدیق (جن کی ذات اس وقت مرجعِ خاص و عام تھی) کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہ کر سلوک کے منازل طے کئے اور اعلی ترقیات و بشارات سے بہرہ ور ہوئے اور تکمیلِ سلوک کے بعد اجازت و خلافت سے بھی سرفراز ہوئے۔ ان کی والدہ سید شاہ علم اللہؒ کی تربیت یافتہ تھیں اور سلوک و طریقت میں بہت سے مردانِ خدا اور سالکینِ راہ سے آگے تھیں ، بہت قوی نسبت رکھتی تھیں ، اور سید شاہ علم اللہؒ کی مجاز ارشاد اور ان کی نسبت باطنی کی وارث و امین تھیں ، انھوں نے سید محمد رضا کے انتقال کے بعد اپنے لائق و ارجمند فرزند کو دہلی سے طلب کیا، پہلے ان کو اس نسبت کی توجہ دی، جوان کو سید شاہ علم اللہؒ سے حاصل ہوئی تھی، اور اس کے بعد سید محمد ضیاء کی امانت و جانشینی ان کے سپرد کی، سید محمد صابر کو بہت قبول عام حاصل ہوا اور طالبانِ خدا ان کی تربیت میں آکر بڑی تعداد میں