سیدشاہ علم اﷲ کے شب وروز
سید شاہ علم اللہؒ کے شب وروز کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو کسی سنت یا مستحب سے خالی ہو یا اس کے بغیر گزر جاتا ہو، ؎
نا خوش آں وقتے کہ بر زندہ دلاں بے عشق رفت
ضائع آں روزے کہ برمستاں بہ ہشیاری گرفت
وہ ہر معاملہ میں رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل پیرا تھے، اور اس کی کوشش کرتے تھے کہ سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، اور کھانے پینے، ملنے جلنے ہر چیز میں ان کا عمل سنت رسول کے مطابق اور اس کے انوار و برکات سے معمور ہو، اس میں ان کو کسی تکلیف یا تکلف کی ضرورت نہ تھی ؛ بلکہ یہ ان کی روح و دل کی غذا بن گئی تھی اور جس طرح مچھلی پانی کے بغیر یا انسان ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح ان کے لئے پیروئ سنت کے بغیر زندہ رہنا مشکل تھا۔
عبادات میں سنن کا لحاظ اور نوافل کی کثرت پھر بھی آسان ہے اور بہت سے مشائخ و صوفیہ شب بیداری اور کثرتِ عبادت میں ایسے ممتاز تھے کہ زمانہ قدیم میں بھی اس کی مثالیں خال خال ملیں گی، اور ان کے اذکار و اشغال اور عبادات و معمولات کی مقداراتنی زیادہ تھی کہ اس کم ہمتی اور عافیت طلبی کے دور میں لوگوں کو شاید یقین نہ آئے، لیکن ایک جلیل القدر شیخ اور مرجعِ خاص و عام کے لیے اپنے چھوٹوں کو سلام کرنا، جھاڑو دینا، پانی بھرنا، گھر کے کام کاج میں اہلِ خانہ اور خدام کے ساتھ شریک ہونا، مریدین و اہلِ تعلق کی موجودگی میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا، سر پر بوجھ اٹھانا، اور دوسروں کا سامانِ ضرورت خرید کر خود ان کے گھر پہنچادینا بہت مشکل اور سخت امتحان و آزمائش کی بات ہے۔
سید شاہ علم اللہؒ نے اس میدان میں جو کمالات حاصل کیے وہ بلا شبہ ان کی