کے بال کاٹ کر فارغ ہوا تو انھوں نے اس کو مزدوری دُگنی دی، وہ یہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا او ر حیران ہوا کہ میں نے تو ان کو اتنا پریشان او ر ذلیل کیا اور یہ الٹی مجھے دگنی مزدوری دے رہے ہیں ۔ اس نے پوچھا : اے درویش! آپ مجھے دو چند اجرت کیوں دے رہے ہیں ؟ میں نے تو طمعِ دنیاوی اور اہلِ دنیا کے خوف سے آپ کی حق تلفی کی تھی، مجھے تو آپ سے کچھ بھی ملنے کی امید نہ تھی، اگر دنیا ہی ہے تو جتنا سب دیتے ہیں ، وہ آپ بھی دے دیں ، دو چند دینے کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابراہیم ادہمؒ نے جواب دیا: اجرت تو حقِ محنت ہے اور زیادتی اس بات کی کہ جب تم مجھے چھوڑ کر کسی مالدار کی حجامت بنانے کے لئے جاتے تھے تو میرے نفس میں شدید غصہ اور اشتعال پیدا ہوتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ تم کو کچھ کہہ دے، لیکن میں نے اپنے نفس کو شکست دینے کے لئے صبر سے کام لیا ، اور صابرین کا درجہ بہت بڑا ہے، اور یہ سب مجھے تمھاری بدولت حاصل ہوا، اس لئے در حقیقت تم میرے دوست ہو، اور اجرت میں اضافہ کی یہی وجہ ہے، اس کے بعد شاہ صاحبؒ نے فرمایا:
اے بھائیو! درویشوں کے اخلاق یہ تھے، ماتم تو ہم جیسوں کو کرنا چاہئے جو لباس درویشوں کا پہنتے ہیں اور کام سرکشوں و فرعونوں کا کرتے ہیں اور غرور نفس کا شکار ہیں ۔
اسی نشست میں یہ بھی فرمایا کہ اے عزیزو! ہم میں سے ہر شخص کو اپنا ماتم کرنا چاہئے اور نظر ہر دم خدا کے فضل و کرم پر رکھنی چاہئے اور اپنے نفس کے بود و پندار سے باہر آنا چاہئے کہ خدا کے فضل کے بغیر سب ہیچ در ہیچ ہے۔
کمالِ معرفت
ایک حاضرِ مجلس نے ایک موقع پر سوال کیا کہ کمالِ عارفان کیا ہے؟ شاہ صاحب نے جواب دیا: وصلِ یاس، اس کی ذات عالی کی یافت سے نا امید ہوجانا بھی