چند روز لشکرِ شاہی میں
سید علم اللہؒ کا آغازِ شباب ہی تھا کہ سید ابو محمدؒ نے کمالِ ہمدردی میں ان کو لشکرِ شاہی کی ملازمت میں لینا چاہا، چوں کہ وہ خود صوبہ دار تھے اور امراء میں سے تھے اس لیے اس کارروائی میں تاخیر اور دشواری کا کوئی سوال نہ تھا، اسباب و سامان اور خیل و حشم جو اس قسم کی شاہی ملازمت کے لئے ضروری سمجھے جاتے تھے، وہ سب انھوں نے مہیا کیے، سید علم اللہؒ کو ملازمت کی مخصوص پوشاک (یونیفارم) پہنائی اور دربار میں لے گئے، ملازمت کی باضابطہ کارروائی ابھی باقی تھی اور یہ وقفہ گویا ان کو اس نئے ماحول سے روشناس کرانے اور آدابِ شاہی سے واقف کرانے کے لئے تھا، اس درمیان میں سید شاہ علم اللہؒ کو چند بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا، آتے وقت ان کو برابر انقباض اور طبیعت میں افسردگی محسوس ہوئی،(۱)لیکن اپنے شفیق ماموں کی خاطر داری کے لئے کچھ روز یہ صبر آزما آمد و رفت برداشت کی۔
زندگی کا نیا موڑ
ادھر یہ کارروائی ہو رہی تھی ادھر خدا ان کے لئے کچھ اور سامان کر رہا تھا، اسی درباری وابستگی سے ایسی صورت پیدا ہوئی جس نے ان کی پوری زندگی کا رُخ تبدیل کردیا اور ان کو ایک نئے عالم میں پہنچادیا، ان کے مؤرخین نے اس سلسلہ میں دو واقعات قلمبند کئے ہیں ، لیکن در اصل وہ ایک ہی واقعہ کے دو پہلو ہیں اور با ہم مربوط ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ شاہجہاں کا دستور تھا کہ سفر میں جہاں اس کا خیمہ لگا یا جا تا تھا اس میں چار منصب دار رات بھر ہر وقت اس کے تخت کے پاس موجود رہتے تھے، ایک مرتبہ دہلی میں کسی جگہ بادشاہ کی فرودگاہ ہوئی، رات کو کسی وقت بادشاہ کی آنکھ کُھلی، اس نے پوچھا کوئی موجود ہے؟ اتفاق سے اس وقت کوئی ڈیوٹی پر نہ تھا اور سید شاہ علم اللہؒ
------------------------------
(۱) اعلام الہدی و سیرت علمیہ۔