یتیم کو تصرف کا پورا حق نہیں ، انھوں نے جواب دیا کہ میں بالغ ہوچکا ہوں ، چار و ناچار شاہ علم اللہؒ کی خدمت میں آم رکھ کر چلے گئے، تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا پہنچا اور کہا کہ حضرت بلا رہے ہیں ۔ میں واپس آیا تو شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ بیان کیا خلافِ واقعہ تھا، جب میں نے اس راہ پر چلنے کا قصد کیا اور ’’جادۂ فقر‘‘ کو پسند کیا تواللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ مجھے حرام و مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھے، تمہارا یہ عطیہ اسی قسم میں داخل ہے، تم یتیم غیر مراہق ہو، اپنے آم واپس لے جاؤ۔(۱)
شاہ عبد الحمید ابدال کو نصیحت
سید شاہ علم اللہؒ نے ایک مرتبہ شاہ عبد الحمید ابدال کو (جو اس زمانہ کے مشہور مجذوب بزرگ تھے اور غلبۂ حال کی وجہ سے ان کو ستر پوشی کا ہوش نہ تھا) ایک بغیر سلا ہوا کپڑا بھیجا اور یہ پیغام کہلوایا کہ ستر عورت صاحبِ شریعت ﷺ کا حکم ہے امتثال ِ امر کریں اور یہ کپڑا سلواکر جامہ پہن لیں ، روایت ہے شیخ عبد الحمید ابدال نے قاصد کے پہنچنے سے پہلے ہی درزی کو بلوالیا اور اس کو سلوائی کی اجرت بھی دے دی، جب قاصد پہنچا تو شاہ عبد الحمید ابدال نے فرمایا کہ جس وقت تم یہ کپڑا لے کر روانہ ہوئے اسی وقت مجھے کشف ہوگیا تھا، چنانچہ میں نے درزی کو بلوالیا ہے اور اس کو اجرت بھی حوالہ کردی ہے، اس کے بعد وہ کپڑا درزی کے حوالہ کیا، اور اسی وقت سلواکر پہنا اور فرمایا کہ سید کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ اطاعتِ امر اور اس فقیر کے ساتھ جو خصوصیت فرمائی گئی اس سے سعادت حاصل کی۔(۲)
شاہ عبد الشکور کو نماز کی تبلیغ
شاہ عبدالشکور صاحب مجذوبؒ جن کا ذکر کتاب میں متعدد جگہ گزرا ہے مغلوب الحال مجذوبوں کی طرح احکامِ شرعیہ کے پابند نہ تھے، سید شاہ علم اللہؒ نے ایک
------------------------------
(۱) و (۲) سیرتِ علمیہ