نامی کی زندگی بسر کرتی رہی، اس میں زیادہ تر افراد منصبِ قضا پر یکے بعد دیگرے فائز ہوتے رہے، اسی سلسلہ کے ایک بزرگ امیر سید قطب الدین محمد ثانیؒ کو قصبہ جائس کا قاضی مقرر کیا گیا اور وہ جائس(۱) منتقل ہوگئے، ان کے بیٹے سید علاء الدین کو سکندر لودی نے نصیر آباد کا قاضی مقرر کیا۔(۲) اور وہ جائس سے نصیر آباد منتقل ہوگئے،(۳)جس محلہ میں ان کا قیام تھا اس کا نام ہی قاضی کی نسبت سے قضیانہ پڑگیا اور آج بھی اسی نام سے موسوم ہے۔ سید علاء الدین کے بعد ان کے بیٹے سید محمود ۷۸۷ھ میں عہدۂ قضا پر فائز ہوئے، انھوں ۸۶۸ھ میں وفات پائی اور ’’باغ قاضی‘‘ میں مدفون ہوئے۔
قاضی سید محمود نے دو فرزند چھوڑے قاضی سید محمد و قاضی سید احمد۔
قاضی سید محمد ۸۶۸ھ میں اپنے والد کے جانشین ہوئے اور ۲۷؍برس مسلسل عہدۂ قضا کو رونق بخشی۔ ۱۲؍ ربیع الاول ۸۹۵ھ میں انتقال فرمایا۔
قاضی سید احمد
قاضی سید احمد (مشہوربہ سید راجع) کمالِ تقوی و احتیاط، دینی حمیت اور ادبِ شریعت میں ممتاز مقام رکھتے تھے‘ ۸۹۵ھ میں اپنے بھائی کے جانشین ہوئے اور ۳۷؍ برس تک مسندِ عدالت و قضا کو اپنے وجود سے زینت بخشی۔
ان ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رشتہ داروں میں جائداد کا کچھ مسئلہ کھڑا ہوگیا، دونوں فریق قاضی (یعنی سید احمدؒ) کے پاس اپنا مقدمہ لائے اور ان سے فیصلہ کے خواستگار ہوئے، قاضی سید احمدؒ نے بلا کم و کاست حکم شرعی بیان کردیا، اس پر مدعی کی
------------------------------
(۱) ان کی قبر انصاریوں کے محلہ میں صحنِ مسجد میں موجود ہے۔ جائس رائے بریلی کا ایک مشہور اور مردم خیز قصبہ ہے۔
(۲) مہر صاحب نے ‘‘سید احمد شہید’’ میں لکھا ہے کہ سید علاء الدین آخر تک جائس ہی میں رہے، البتہ ان کے پوتے کو نصیر آباد میں عہدۂ قضا مل گیااور وہ وہاں آگئے، لیکن ‘‘تذکرۃ الابرار’’ مرتبہ مولانا سید عبد الحی ‘‘برکات احمدیہ’’ اور تاریخ کڑا مانک پور اور بعض خاندانی شجروں میں اس کی صراحت ہے کہ سید علاء الدین بھی نصیر آباد تشریف لائے۔
(۳) تاریخ کڑا ومانک پور۔