بکثرت فاقہ کے واقعات پیش آتے رہے اور فاقہ ان کے نام کے ساتھ اس طرح ضرب المثل ہو گیا تھا کہ اگر خاندان میں کسی کے ہاں فاقہ ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ آج ان کے گھر میں شاہ علم اللہ صاحبؒ تشریف لائے ہیں ۔
اسی کے ساتھ برکت کے واقعات بھی بکثرت پیش آتے تھے۔ اگر مہمان آجاتے تھے تو سیر ہو کر کھاتے تھے اور کوئی نہ کوئی صورت ان کے لئے غیب سے پیدا ہوجاتی تھی۔
ایک وفد کی ضیافت
ایک مرتبہ دو تین روز کے فاقہ کے بعد تقریباً چالیس آدمیوں کے لئے کھانا تیار ہوا اچانک سید شاہ علم اللہؒ کے بعض کبار خلفاء مثلاً شیخ فتح محمد انبالوی و شیخ محمد خورجوی و شیخ محمد عبد الحلیم شاہ جہاں پوری(۱) ۸۰؍ آدمیوں کے ایک قافلہ کے ساتھ سید شاہ علم اللہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کو دیکھ کر سید شاہ علم اللہؒ نے فرمایا کہ جتنا کھانا بچا ہے اس کا نصف گھر بھجوادیا جائے اور باقی یہاں ایک بڑے طشت میں لے آیا جائے، اس پر عمل کیا گیا اور بیس آدمیوں کا کھانا سو آدمیوں کے لیے کافی ہوگیا،فراغت کے بعد جب دیکھا گیا تو معلوم ہوتا تھا کہ اس طشت میں سے کچھ لیا ہی نہیں گیاہے۔
فاقہ کے ساتھ یہ روز مرہ کے واقعات تھے جو اس دسترخوان پر پیش آتے رہتے تھے لیکن فاقہ ہو یا دعوت، ہر حال میں سنت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا، اور یہ گوارا نہ تھا کہ رسو ل اللہ ﷺ کی کوئی ادنی سنت کسی بڑی سے بڑی وجہ سے فوت ہو۔
مجاہد ہ کی یکساں زندگی
خواجہ محمد امین بدخشی نے علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی کے حوالہ سے ’’نتائج
------------------------------
(۱) سید شاہ علم اللہؒ کے خلفاء کا تذکرہ کتاب کے آخر میں انشاء اللہ آئے گا۔ سیرتِ علمیہ بہ روایت سید محمد نور فرزند سید شاہ علم اللہؒ