نگاہِ کرم
مواجہہ شریف کے پاس پہنچے اور السلام علیک یارسول اللہ تو اندر سے آواز آئی و علیک السلام یا ولدی، نگاہِ کرم کو متوجہ پاکر دل کھول کر رکھ دیا، برسوں کی حسرتیں اور تمنائیں پوری ہوئیں اور ہر طرح کے انعامات و عنایات سے سرفراز ہوئے۔(۱)
اتباعِ سنت کااہتمام
اپنے مصارف کے لیے حسبِ معمول کسی کے احسان کے روادار نہ ہوئے، لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اپنے اخراجات پورے کرتے تھے، اس سے زیادہ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ سنت اور اسوۂ صحابہؓ کی پیروی میں اس قدر جان و دل سے کوشاں تھے کہ جس گلی اور جس راستہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکڑیاں اپنے سر پر لائے تھے اور جس بازار میں ان کو فروخت کیا تھا اسی جگہ سے لکڑیاں لائے اور اسی بازار میں فروخت کیا، اسی طرح جس بازار میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کپڑے فروخت کیے تھے ان کی اتباع میں تھوڑے سے کپڑے حاصل کیے اور برکت کے لیے اسی بازار میں جا کر فروخت کیا۔(۲)
تنہا اسی واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کی مدینہ منورہ کی زندگی کس قدر زہد و احتیاط، اتباعِ سنت اور عشق و محبت کی زندگی تھی اور وہ معمولی معمولی اور روزمرہ کی باتوں میں بھی ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ پر کس طرح عمل پیرا تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے زہد و تقوی کو دیکھ کر مشائخِ حرمین کہنے لگے کہ ھذا کأبی ذر (یہ تو ابو ذر غفاریؓ کا نمونہ ہیں )۔(۳)
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار و سیرتِ علمیہ
(۲) بحرِ زخار(منتخب)
(۳) تذکرۃ الابرار و بحرِ زخار