وقت چاہتا ہے زائل ہوجاتی ہے، اس کا یہ کام ہشیاری و بیداری اور مطابقتِ امرِ باری میں ہوتا ہے، یہ حالت کمالِ حضور اور ہر وقت نور کی علامت ہے۔‘‘
ایک نکتہ
ایک موقعہ پر فرمایا کہ معرفت کے بیان میں : ’’کل لسانہ‘‘ اور ’’طال لسانہ‘‘ دونوں باتیں بیان کی گئی ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ’’من عرف ربہ کل لسانہ‘‘ (جس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس کی زبان بند ہوگئی) بھی صحیح ہے اور ’’من عرف ربہ طال لسانہ‘‘ (جس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس کی زبان چلنے لگی) بھی درست ہے، ’’طال لسانہ‘‘ سے اشارہ صفات الٰہی کی طرف ہے، جس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے وہ سب صفاتِ الٰہی کے ظہور کے متعلق ہے اور ’’کل لسلانہ‘‘ سے اشارہ ذاتِ الٰہی کی طرف ہے، جہاں سوائے عجز کے کسی کو دم مارنے کا یارا نہیں ، پس طالبانِ حق کو چاہیے کہ اس ذات عالی کو ہر قسم کے وہم و خیال و ادراک سے بالا و منزہ سمجھیں اور اس کی ذات کے چوں و چرا اور کیفیت میں دم نہ ماریں ۔
ایک آیت کی تشریح
اسی مجلس میں فرمایا کہ میں اس آیت : ’’ما أصابک من حسنۃ فمن اﷲ و ما أصابک من سیئۃ فمن نفسک‘‘(۱)کا مطلب ایک عزیز سے دریافت کیا، انھوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کے بعد فقیر کے دل میں یہ آیا کہ نفس کی مثال اس پانی کی طرح ہے جو ہمیشہ نشیب کی طرف جاتا ہے اگر کوئی حکیم وصناع اپنے علم و حکمت سے اس کو بلندی کی طرف لے جائے تو یہ اس کے کمالِ حکمت و صنعت کی بات ہوگی،
------------------------------
(۱) ترجمہ: تم کو جو کچھ اچھائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ بُرائی پہنچتی ہے وہ تمھارے نفس کی طرف سے ہے۔