’’ایک روز صبح کی نماز ادا کرنے مسجد جارہے تھے، گیہوں کے کھیت میں اتفاق سے پیر پڑگیا، درخت کچل گئے، زمین کسی اور شخص کی تھی، انھوں نے سبزہ کی حالت دیکھی، خوف و دہشت الٰہی سے جسم میں لرزہ پڑگیا اور چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا، اسی روز سے روزانہ انھوں نے بعد نمازِ اشراق و ظہر اس سبزہ میں پانی دینا شروع کیا، جب تک وہ اپنی حالت پر نہیں آگیا ان کو اطمینان نہیں ہوا۔‘‘
ایک مرتبہ ایک ارادت مند اپنے باغ سے ایک سرخ آم ان کی خدمت میں تحفۃً لایا، انھوں نے اس سے پوچھا کہ تم تنہا ہو یا تمھارے کوئی اور بھائی بھی ہے، اس نے کہا کہ ایک بھائی اور ہے، انھوں نے کہاکہ یہ آم تنہا تمہاری ملک نہیں ، تا وقتیکہ تم اپنے بھائی سے اجازت حاصل نہ کرو ، مجھے نہیں دے سکتے اور نہ میں اسے لے سکتا ہوں ۔ یہ کہہ کر اس کو واپس کردیا۔(۱)
’’تذکرہ مشاہیر کاکوری‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ قصبہ کاکوری میں محلہ ولی نگر ان ہی کا آباد کیا ہوا ہے اور قصبہ کے کنارے شمالی رُخ پر واقع ہے، پہلے ان کاقیام مخدوم شیخ قیام الدین کے محلہ متصل ’’چودھری محلہ‘‘ میں تھا، وہاں سے منتقل ہونے کا سبب یہ ہوا کہ پڑوس میں ایک روز شادی تھی اور ڈھولک بج رہی تھی، انھوں نے منع کیا، ہمسایہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ ہم اپنے گھر کے مالک ہیں ، تم کو تحکم کا کوئی حق نہیں ہے، انھوں نے اسی وقت اس محلہ کی سکونت ترک کردی۔(۲)
شیخ محمود خاں افغانؒ
صاحبِ’’ بحرِ زخار‘‘ نے سید شاہ علم اللہؒ کے خاص مریدوں میں محمو د خاں افغان
------------------------------
(۱) و (۲) تذکرہ مشاہیرِ کاکوری، ص: ۳۸۷