سید شاہ علم اللہؒ حضرت سید آدم بنوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند ہی روز میں توفیق الٰہی سے تمام منازلِ سلوک طے کر لیے اور ’’ولایتِ خاصہ و اخص و خاص الخاص‘‘ اور مراتبِ کمالاتِ نبوت سے سرفراز ہوئے، ’’حضرت سید آدم بنوریؒ نے خلافت و نیابت عطا کی اور اپنا عمامہ اور حضرت مجدّد کی دستار ِ مبارک عنایت کی۔‘‘(۱)
خواجہ محمد امین بدخشی نے جو حضرت آدم بنوریؒ کے مجاز و مقرب ہیں ، ’’نتائج الحرمین‘‘ میں لکھا ہے کہ دیوان سید خواجہ احمد اور سید شاہ علم اللہؒ دونوں ساتھ گوالیار گئے تھے، اور حضرت آدم بنوریؒ سے بیعت ہوئے تھے اور ان سے استفادہ کیا تھا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’دراں ایام کہ سیدی عازمِ حرمین بودند بہ سببِ باراں دو نیم در شہر گوالیار اقامت کردند، حضرت میر سید علم اللہ جیو، و میاں خواجہ احمد بہ صحبتِ ایشاں رسیدہ استفادہ باطنی کردند، فقیر و ایشاں و قاضی و داعی شہر در یک صحبتِ خاصہ و عرفان مخصوصہ استفادہ کردیم، و خارقے ہم از ایشاں دیدم آخر آں در سال ہزار و ہفتاد و پنجم در مکہ ملاقات کردیم و لیکن از احوالِ خود نگفتہ۔‘‘(۲)
طالبِ صادق کے شب و روز
حضرت سید آدم بنوریؒ کی خدمت و صحبت میں کتنا زمانہ گزرا، اس کے متعلق کوئی متعین بات نہیں کہی جاسکتی، مہرِ جہانتاب سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بارہ راتیں بہت عسرت اور تہی دستی کے ساتھ گزاریں ، روزانہ صبح جنگل کی طرف نکل جاتے
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہید از مولانا ابو الحسن علی ندوی ص:۵۹
(۲) خواجہ محمد امین بدخشی کی یہ روایت بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ جب وہ خود سید شاہ علم اللہؒ دورانِ تعلیم میں دیوان خواجہ احمد کو سید آدم بنوریؒ سے بیعت کی ترغیب دیتے رہتے تھے تو بہت ممکن ہے کہ دونوں نے ساتھ ہی بیعت کرنا طے کیا ہو۔