لے رہے تھے، انھوں نے اس اہم شعبہ میں بھی عزیمت اور اتباعِ سنت کی وہی شان بر قرار رکھی جو ان کا سب سے بڑا وصف اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا پیغام ہے، اپنے تمام فرزندوں کانکاح انھوں نے پانچ سو درہم شرعی پر کیا، اپنی صاحبزادیوں کا مہر چار سو درہم شرعی رکھا جو حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا مہر ہے، یہاں تک کہ اپنی صاحبزادیوں کے جہیز میں انھوں نے کوشش کر کے اور اہتمام کے ساتھ وہی سامان دیا جو سیدہ فاطمہ ؓ کے جہیز میں دیا گیا تھا، انھوں اپنی صاحبزادی کی شادی جس سادگی اور اتباعِ سنت کے ساتھ کی وہ کم از کم اس خاندان میں اس کی پہلی مثال ہے۔
’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں ہے کہ ان کی لڑکی ان کے بھتیجے سید عبد الرحیم فرزند مولانا سید ہدایت اللہ سے منسوب تھیں ، سید شاہ علم اللہؒ اچانک نصیر آباد پہنچے، بھائیوں سے ملاقات کی، سید عبد الرحیم بھی وہاں پر موجود تھے، اس زمانہ میں دستور تھا کہ لڑکا شادی سے پہلے اپنے خسر کے سامنے نہیں آتا تھا، سید عبد الرحیم جانے کے لئے اٹھنے لگے، شاہ صاحب نے دیکھ کر فرمایا کہ میاں عبد الرحیم وضو کرکے آجاؤ، اس وقت تمھارا عقد ہے، مولانا سید ہدایت اللہ نے یہ عذر کیا کہ اس قدر اچانک عقد مناسب نہیں کچھ مہلت ہونی چاہئے، کچھ دیر گفتگو کے بعد وہ بھی آمادہ ہوگئے اور اسی مجلس میں ان کا عقد ہوگیا(۱) جہیز بھی سنت کے مطابق تھا، سیدہ بی بی حنیفہ کی شادی میں سنت کے مطابق پیدل چل کر ان کو ان کی سسرال تک پہنچایا، جہیز میں ان کو چکی بھی دی تا کہ اتباعِ سنت میں کوئی کمی نہ رہ جائے (یہ چکی بہت عرصہ تک بی بی حنیفہ کے فرزندوں کے پاس محفوظ رہی۔)
’’مہرِ جہاں تاب‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ دیوان سید خواجہ احمدؒ (جو خود ایک نقشبندی شیخ اور متبعِ سنت بزرگ تھے) کی روایت ہے کہ سید شاہ علم اللہؒ کی خواہش اور کوشش تھی کہ جہیز میں جو سامان دیا جائے اس میں سنت سے سرِ مو تجاوز نہ ہو، چنانچہ
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار۔