کسی کو ان کی آمد کی اطلاع نہ کریں ، ا س کے بعد ایک علیحدہ مقام پر فروکش ہوئے، ایک صاحب جو اس ہدایت کے وقت حاضر نہ تھے اور اس مصلحت سے ناواقف تھے، ان سے یہ راز افشا ہوگیا، چند طالب علم جو سوادِ قصبہ میں سیر و تفریح کرتے ہوئے جارہے تھے یہ صاحب ان کے پیچھے تھے۔ ایک طالب علم نے ان سے پوچھا کہ اس جماعت کا امیر اور رہنما کون ہے؟ انھوں نے سید شاہ علم اللہؒ کا پتہ بتادیا، طلبہ (جو کہ اس موقع کے منتظر ہی رہتے ہیں کہ کوئی بحث و مناظرہ کا موقع آئے) فوراً شیخ احمد (ملاّ جیون) کے پاس گئے، اور ان کو اطلاع کی کہ سید شاہ علم اللہؒ اس وقت قصبہ میں تشریف فرما ہیں ، شیخ احمد صاحب چند شاگردوں کے ساتھ تشریف لائے اور سلام کیا، سید شاہ علم اللہؒ نے سلام کا جواب دے کر نام پوچھا، انھوں نے کہا جیون، سید شاہ علم اللہؒ نے سوچا کہ جس کا اندیشہ تھا وہی ہوا اور دعا کی کہ اللہ تعالی مجھے اس موقع پر ناحق کوشی اور سخن پرستی سے محفوظ رکھے۔
اس نشست پر کچھ ہی دیر گزری تھی کہ شیخ احمد صاحب نے یہ سوال کیا کہ سماع کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ سید شاہ علم اللہؒ فرمایا کہ مشائخ حنفیہ اس کی حُرمت کے قائل ہیں اور میرا بھی اسی پر عمل ہے، شیخ احمد صاحب نے ’’جاریتان تغنیان‘‘ کی حدیث پیش کی، سید شاہ علم اللہؒ نے فرمایا کہ ’’تغنیان‘‘ کے عربی میں متعدد معنی ہوسکتے ہیں ، اور حلال و حرام کے مسئلہ میں دلیلِ قطعی کی ضرورت ہوتی ہے، اور جس لفظ میں دوسرے احتمالات ہوں اس