خادم کے ہاتھ شاہ صاحب کو ارسال کئے، اس موقع پر ایک مغلوب الغضب شخص موجود تھا اس نے جذبات کی رو میں آکر اس کاغذ کو پھاڑ ڈالا، شاہ علم اللہؒ نے اگرچہ اس شخص کو ہر چند ملامت کی، لیکن حاملِ رقعہ نے واپس جا کر اس واقعہ کی اطلاع ملا باسو کو کردی۔ ملا باسو نے موقع کو غنیمت جان کر فوراً ایک استفتا مرتب کیا کہ فلاں شخص نے شرع کی بے حرمتی کی ہے اور ملا خواجگی جائس کے پاس لے گئے، ملا خواجگی نے اس استفتا کو چاک کردیا، اور یہ کہا کہ ملا شیروں کے ساتھ روباہ بازی نہ کرو، اور ایک ناحق بات اور نا مشروع لباس کے پیچھے اپنے کوعلماء زمانہ کی ملامت کا ہدف نہ بناؤ، حق تو یہ ہے کہ مکڑی کے جال کا لباس کبھی راس نہیں آسکتا اور حرام و ناجائز چیز خواہ تقریر و تحریر کے کتنے ہی خوشنما غلاف میں پیش کی جائے اربابِ دانش کی نظر میں قبیح و بدنما ہی رہے گی۔(۱)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات میں سید شاہ علم اللہؒ کے ساتھ اللہ تعالی کی خاص ’’نظرِ عنایت‘‘ تھی اور اس کی مرضی و مشیت یہی تھی کہ احیاء سنت کے اس عظیم اور مبارک کام میں جو ان سے پہلے شیخ احمد سرہندی مجدد الفِ ثانیؒ کے سوا کسی اور جگہ قوت کے ساتھ انجام نہیں دیا گیا ان کا بہت نمایاں اور خاص حصہ ہو اور وہ اس کا رمز اور نشان بن جائیں ۔ اور واقعہ یہی ہے کہ اس معاملہ میں ان کی انفرادیت اور امتیاز کی شہرت علماء و مشائخ سے لے کر امراء و سلاطین سب جگہ پہنچ گئی تھی اور سب ا س کو صاف طور پر محسوس کر رہے تھے کہ ان کی شخصیت کو دوسروں پر قیاس کرنا یا عمومی پیمانوں سے ناپنا اور ان سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ کسی وجاہت، امارت، سلطنت، علم و ہنر اور فضل و کمال یا احوال و مقامات اور خوارق و کرامات کے سامنے اپنے موقف سے ہٹ جائیں گے یا ان ہی کی تعبیر میں ’’ناحق کوشی اور سخن پروی‘‘ کا سہارا لیں گے‘ بالکل
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ