درمیان ہوا، اس مکالمہ میں سید شاہ علم اللہؒ کا طرزِ فکر اور ان کے خیالات و معتقدات بہت وضاحت کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور اس میں ان کی شخصیت پوری طرح جلوہ گر ہے۔
ذیل میں اس مکالمہ کا اقتباس بلاکم و کاست پیش کیا جارہا ہے:
’’ایک مرتبہ شاہ پیر محمد صاحب لکھنوی رائے بریلی آپ کی قیام گاہ پر تشریف لائے اور دونوں جلیل القدر معاصرین کی ملاقات ہوئی۔ شاہ پیر محمد صاحبؒ کے جسم پر اس وقت ایک رنگین گلابی لباس اور گردن میں مالا پڑی ہوئی تھی، شاہ علم اللہؒ نے فرمایا کہ جناب رئیس العلماء کتاب و سنت سے سب سے زیادہ واقف ہیں ، یہ فرمائیں کہ اس مالا و زنار کے درمیان بافت اور تافت کے سوا کیا فرق ہے؟ شاہ صاحب نہایت منصف مزاج بزرگ تھے، بے تامل گردن سے مالا اتاردی، شاہ صاحب نے اس کے بعد فرمایا کہ یہ رنگین گلابی کپڑے بھی خلافِ سنت ہیں اور ہندوستان کے جوگیوں کی پوشاک ہے، آپ جیسے خواص کے شایانِ شان نہیں ، شاہ پیر محمد صاحب نے فرمایا کہ یہ رنگ مَیل قبول نہیں کرتا اور ذرا دیر میں دھونے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے حالتِ سفر میں مباح ہے، شاہ علم اللہؒ صاحب نے فرمایا یہ توجیہ تکلف سے خالی نہیں ، جناب کا یہ کرتا اور چادر اور عمامہ جس قیمت کا ہے اس میں اس بات کی کیا رخصت ہوسکتی ہے؟ پھر جناب کے خدّام کو یہ زحمت برداشت کرنی چاہیے، شاہ پیر محمد صاحب نے اس کا اعتراف فرمایا، اور شاہ صاحب کی بات قبول