کبار میں سے تھے‘ ملاقات کیلئے آئے، ان کو آپ نے امر بالمعروف اور تمام خلافِ شرع کاموں سے توبہ کرائی، توبہ کے بعد جو نذر وہ لائے تھے‘ قبول فرمائی، وہ رخصت ہو کر تقریباً ایک کوس گئے ہوں گے کہ ان کے لشکر سے نقارہ کی آواز آئی اسی وقت نذر واپس بھیج دی۔(۱)
ان کا عمل الحب فی اللہ و البغض فی اللہ (اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے نفرت) پر تھا۔ اگر معلوم ہوتا کہ کسی سے کوئی فعل خلافِ شریعت صادر ہوا ہے تو اظہارِبیزاری فرمادیتے اور جب تک وہ شخص توبہ نہ کرلیتا اس سے کوئی تعلق نہ رکھتے، ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں ہے کہ ابتدا میں اگر کوئی توبہ کرلیتا تو اسی وقت اس کی نذر قبول کرلیتے، لیکن بعد میں یہ حال ہوگیا تھا کہ اس کو ٹال دیتے تھے اور کہتے تھے پھر کسی دوسرے موقع پر آنا، مطلب یہ ہوتا تھا کہ اگر اس توبہ پر ثابت قدم رہا تو قبول کرلیں گے، ورنہ واپس کردیں گے۔
رسوم و بدعات اور خلافِ شرع کاموں سے قلبی نفرت تھی اور بغیر کسی مداہنت اور تاویل کے اس کو منع فرمادیتے تھے ایسے کاموں سے چشم پوشی گوارار نہ تھی‘ اور اکثر لوگ جو ان کی خدمت میں آتے تائب ہوکر واپس جاتے اور ان کی اصلاح ہوجاتی، اکثر ان کے کہنے کا ایسا اثر ہوتا کہ اسی محفل میں لوگ اپنی مونچھیں کتروادیتے اور لانبی آستین اور دامن چھوٹا کرادیتے۔
شیخ عبد الحکیم نے سید شاہ علم اللہؒ کے ملفوظات میں ایک واقعہ لکھا ہے ‘ جس سے ان کے طرزِ عمل کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سمجھانے کا اسلوب اور طریقۂ دعوت کیا تھا:
’’عید الاضحی کے روز سورج نکلے آپ مسجد سے نکل کر مکان پر
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہید بحوالہ نتائج الحرمین