ہوا کھانا دیتے تھے؛ تا کہ ماں کے دودھ میں کمی نہ ہو اور بچہ بھوکا نہ رہ جائے۔
ا سی طرح ایک وقت میں دو طرح کا سالن نہیں کھاتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا نہیں کیا، بلکہ دو سالن کبھی پکوائے بھی نہیں جاتے تھے۔
اگر کوئی وفد یا کوئی مہمان آجاتا تو تین روز اس کی ضیافت ضروری سمجھتے اور اس ضیافت میں بڑے چھوٹے اور گھر کے سب افراد شریک ہوتے، مخصوص کھانا بلاکسی عذر اور ضرورت کے کبھی نہ پکواتے، کھانا ہمیشہ سنت کی مطابقت میں تین انگلیوں سے کھاتے تھے۔
’’سیرتِ علمیہ‘‘ میں ہے کہ شیخ محمد افضل الہ آبادی نے (جو خود ایک عالم ربانی اور شیخ تھے) سید شاہ علم اللہؒ کے دسترخوان کا حال سن کر ارادہ کیا کہ اپنے ہاں بھی اسی مساویانہ تقسیم کا رواج ڈالیں ، لیکن بات کہنے میں جتنی آسان تھی عمل میں اتنی ہی دشوار تھی، اپنے فرزندوں اور جگر کے ٹکڑوں اور اغیار و بیگانوں میں کسی موقع پر اور کسی معاملہ میں بھی کوئی تفریق نہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ، اس پر و ہی عمل کرسکتا ہے جس کی نگاہِ بصیرت میں خویش و اغیار سب برابر ہوگئے ہوں اور غلبۂ توحید نے اس کو اس مقام تک پہنچادیا ہو، آخر کار دسترخوان کا یہ نقشہ ان کے ہاں قائم نہ رہ سکا، شیخ محمد افضلؒ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’لوہے کے چنے چابنے کے لئے دانت بھی فولاد کے چاہئیں ‘‘ یہ مجاہدہ سید شاہ علم اللہؒ صاحب ہی کے ساتھ مخصوص ہے کوئی دوسرا اس میں ان کی برابری نہیں کرسکتا۔(۱)
لیکن دسترخوان کے بار بار ذکر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سید شاہ علم اللہؒ کے ہاں بہت فارغ البالی تھی، ’’مخزن احمدی‘‘ میں ہے کہ سید شاہ علم اللہؒ نے بارہا دعا فرمائی تھی کہ وہ زخارفِ دنیا میں گرفتار نہ ہوں ، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی میں
------------------------------
(۱) سیرتِ علمیہ و تذکرۃ الابرار و دیگر مآخذ