رمضان المبارک ۱۳۸۳ھ میں مجھے ’’تذکرۃ الابرار‘‘ اور ’’سیرتِ علمیہ‘‘ بالاستیعاب دیکھنے کا موقعہ ملا اور شاہ علم اللہ کے پرُ اثر واقعات و حالات نے دل پر عجب اثر کیا اور مطالعہ کے وہ لمحات بڑے اچھے گذرے، ع
چند لمحے یاد کے تاباں ، درخشاں ، جاوِداں
مولانا حکیم سید فخر الدینؒکے الفاظ جو انھوں نے ’’سیرتِ علمیہ‘‘ کے آغاز میں لکھے راقمِ سطور کے لئے مہمیز بن گئے اور انھوں نے آتشِ شوق کو اور بھڑکادیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’از مدت دیرینہ آرزوئے دلی و تمنائے قلبی ایں نابود ہستی نما ایں بود کہ سیرتِ حضرت قدوہ ٔ علمائے راسخین زبدۃ اولیائے کاملین مولانا و مولی الاکابر مولانا سید علم اللہ الحسنی الحسینی القطبی قدس سرہ الاقدس بضبط تحریر آرد تا ذکرِ ایں چنیں باعثِ نزول رحمتِ خداوندی و موجب بصیرت و خبرت اخلاف آں ممدوح الاوصاف گرد، نا گاہ مسودہ ’’اعلام الہدی‘‘ مصنفۂ جناب فضیلت مآب کمالات انتساب گنجینۂ علم و عرفان مولانا سید محمد نعمانؒ نبیرۂ جناب ممدوح از نظر گذشت۔ فقیر کہ ہم از بدنام کنندہ نکو نامان ایں دو مان عالی شان است، آں را غنیمت باردہ شمردہ در حدود ۱۳۱۷ھ بہ تبییض و ترتیبش پرداخت و حسب موقع و محل اختصار و اضافہ نمود۔‘‘
اس لحاظ سے راقم سطور کے لئے بڑی سعادت اور خوش نصیبی ہوگی اگر اس تذکرہ کی تکمیل اس کے حصہ میں آئے اور اس کے آباء و اجداد کی یہ امانت تاریخ میں اپنی جائز اور صحیح جگہ پائے۔
اس سے بڑھ کر لا لچ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعات و حالات اور ارشادات و ملفوظات کسی کے دل پر اثر کریں اور کسی کی ہدایت و تغیرِ حال کا ذریعہ بن