اس خاندانی و خونی رشتہ کے ساتھ مل کر ان کو دینی زندگی اور روحانی ترقی کا ایک رمز یا نشان بنادیا (علم اللہ کے معنی بھی یہی ہیں یعنی خدا کا نشان یا پرچم) اور خاندان کے اہل فکر و اہل دل برابر ان کے واقعات لکھتے اور سنتے سناتے رہے۔
خوش قسمتی سے خاندان کی جس شاخ سے راقمِ سطور کا تعلق ہے یعنی مولانا حکیم سید عبد الحیؒ سابق ناظم ندوۃ العلماء و مصنف نزہۃ الخواطر کی شاخ، اس کے بزرگوں نے ان کے حالات و واقعات کو یک جا کرنے‘ ان کو مکمل کرنے اور ان میں اضافہ کرنے کا کام بہت ذوق و شوق اور علمی و تاریخی خصوصیات کے ساتھ برقرار رکھا۔ ان کی سیرت کا سب سے معتبر اور مستند ماخذ ’’اعلام الہدی‘‘ ہے جو خود ان کے پوتے اور عالم ربانی مولانا محمد نعمانؒ نے (جو حضرت سید احمد شہیدؒ کے چچا اور شاہ ولی اللہ کے مخصوص رجال میں ہیں ) تصنیف کی، لیکن وہ اپنی زندگی میں اس کی تکمیل نہ کرسکے، ہندوستان کے مایۂ ناز مؤرخ مولانا حکیم سید فخر الدینؒ (م: ۱۳۶۲ھ) مؤلف ’’مہرجہاں تاب‘‘(۱)نے ’’سیرتِ علمیہ‘‘ کے نام سے اس کی تبییض و ترتیبِ جدید اپنی سعادت سمجھی اور اس میں مزید اضافے کئے۔ ان کے نامور فرزند مولانا حکیم سید عبدالحیؒ سابق ناظم ندوۃ العلماء نے اس کی مزید تنقیح کی اور ’’تذکرۃ الابرار‘‘ اسکا نام رکھا۔ میرے نانا مولانا سید ابو القاسم ہسوی نے بھی اس کارِ خیر میں حصہ لیا اور اپنی کتاب ’’برکاتِ احمدیہ‘‘ میں شاہ صاحب اور ان کے فرزندوں کا تذکرہ کیا۔
والد ماجد ڈاکٹر حکیم مولانا سید عبد العلی حسنیؒ ناظم ندوۃ العلماء نے بھی ’’بحرزخار‘‘ سے ان حصوں کاانتخاب کیا جو حضرت شاہ صاحب سے متعلق تھے، اور ان ہی علمی نوادر اور بیش قیمت یادگاروں کی ہر قیمت حفاظت کی، نیز بڑے ذوق و شوق کے ساتھ شاہ صاحب کے ایک رسالہ ’’عطیات‘‘ کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا۔ عمِ مخدوم و معظم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مد ظلہ نے سیرت سید احمد شہید کے شروع میں شاہ صاحب کے خاندان اور ان کے با کمال فرزندوں کے حالات و واقعات قلمبند کئے، یہ اردو میں پہلی اور منتخب چیز تھی جو ہمارے سامنے آئی۔