خدا طلبی اور خود شناسی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس کی ہمت بندھتی ہے اور امید بڑھتی ہے، اس میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی اس راستہ پر چل کر ان مقامات تک پہنچے اور وہ مرتبہ حاصل کرے جو اگر پوری عمر اورپوری دنیا بیچ کر بھی مل جائے تو بہت ارزاں ہے بلکہ محض توفیق الٰہی اور رحمتِ خداوندی ہے ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
ایک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
اس پست ہمتی، تن آسانی، عافیت طلبی اور نیک کاموں میں قناعت پسندی کے دور میں اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ تمام انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے سامنے ایسی عملی مثالیں پیش کی جائیں جن سے ان میں اولو العزمی، حوصلہ مندی اور بلند ہمتی کے اوصاف پیدا ہوں اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ کتنی بڑی دولت کی ناقدری کررہے ہیں ، اور کیسے کیسے خزانوں اور طاقت کے سرچشموں کو وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے بیٹھے اور خدا کے لافانی خزانوں ، اس کے لازوال انعامات اور سب سے بڑھ کر اس کی نظرِ کرم اور نظرِ محبت کے مقابلہ میں کیسے فانی، عارضی، زود رنج، بے مروت، بے وفا اور طوطا چشم آسروں کا سہارا لئے ہوئے ہیں اور کائنات کی کتنی حقیر اور چھوٹی کسر پر قناعت کئے بیٹھے ہیں ۔
اس کتاب کا ایک ذاتی اور جذباتی محرک بھی ہے، حضرت سید شاہ علم اللہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ سادات کے اس خانوادہ میں جس سے راقمِ سطور کا نسبی تعلق ہے اور جس کی تفصیل آگے ملے گی، جو بلند مقام رکھتے ہیں اور خاندان کے اکابر کے دل میں ان کی جو عظمت اور محبت نقش ہے ، پھر ان کی دل آویز اور طاقت ور شخصیت ان کی پیروئ سنت اور شانِ عزیمت ان کے اوصاف و کمالات اور پر اثر اور سحر انگیز حالات و واقعات نے
------------------------------
(۱) ‘‘مہرجہاں تاب’’ در اصل ہندوستان کی علمی و ادبی تاریخ اور یہاں کی با کمال ہستیوں کا دائرۃ المعارف یا انسائیکلوپیڈیا ہے ، اسی کے ساتھ اس میں عالمِ اسلام کے مشاہیر اور علوم و فنون کی تاریخ پر قیمتی مواد موجود ہے ۔ پوری کتاب فارسی میں ہے اور غیر مطبوعہ ہے اس کی دو جلدیں فل اسکیپ سائز کے پندرہ سو صفحات پر مکمل ہوئی ہیں