سے خوش اور سرفراز ہوتا ہے ؎
جو ہم دل پر اس کا کرم دیکھتے ہیں
تو دل کو بہ از جامِ جم دیکھتے ہیں
کس طرح اس کی مخلوق کے لئے فیض و سخاوت کا سمندر بن جاتا ہے اور کس طرح اس کے انوارو برکات سے آشنا و بیگانہ، دوست و دشمن اور قریب و بعید اپنی اپنی استعداد اور ظرف اور توفیق الٰہی کے بقدر مستفید ہو تے ہیں ، اس کی ذات خلائق کے لئے مرکز و مرجع بن جاتی ہے اور اس کے اثرات زمانہ اور مسافت کے پردوں کو چیرتے ہوئے آنے والی نسلوں تک پہنچتے ہیں ۔
کس طرح اس کی دعاؤں سے مصیبتیں ٹلتی ہیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور اس کا وجود رحمت و سکینت کی چادر بن کر پورے ماحول پر محیط ہوجا تا ہے، کس طرح اس کی محبت انسانوں کے دل میں ڈال دی جاتی ہے، اور وہ کشاں کشاں اور افتاں و خیزاں اس کے پاس پہنچتے ہیں اور دیوانہ وار و بے قرار ہو کر اس کا ہاتھ تھامتے ہیں اور اس کے پیچھے چلنا اپنی سعادت جانتے ہیں اور اس کی ہر جنبش لب اور ہر نگاہِ غلط انداز کو باعثِ افتخار اور سرمایۂ امتیاز سمجھتے ہیں اور زبانِ حال سے گویا ہو تے ہیں ؎
آناں کہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
کس طرح و ہ چھپنا چاہتا ہے اور چھپ نہیں سکتا، دنیا سے منھ موڑتا ہے اور دنیا اس کے قدموں پر گرتی ہے، امراء و بادشاہوں سے دور رہنا چاہتا ہے اور وہ اس کی تلاش میں پیچھے پیچھے گھومتے ہیں ، کس طرح وہ خویش و اقارب اور خاندان و قبیلہ کے حدود کو پار کر کے پوری انسانیت کا سرمایہ، زمین کی زینت اور دنیا والوں کے لئے برکت بن جاتا ہے۔
سید شاہ علم اللہؒ کی زندگی کے مطالعہ سے انسان میں وہ جوہر خوابیدہ اور وہ مبارک خلش بیدار ہونے لگتی ہے جو خدا نے ہر انسان میں ودیعت کی ہے، اس کے اندر