ازہار الحق کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے سید شاہ لعل صاحب کی خدمت میں ان کی حاضری کا ذکر کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’شاہ لال مرحوم کہ دراں زماں زندہ بود ‘ او را غنیمت شمردہ بخانہ خود جائے داد و بخدمت افادۂ علم برائے تدریس رو نہادند در مسجد شاہ مذکور درس طلبہ علم می داد و استفادات باطنی از خدمت شاہ مذکور می گرفت تا آنکہ در عقد بیعت او در آمد و ذکر و فکر بر طریقہ نقشبندیہ از اُو آموخت و مراقبہ و حبس دم در اشغال شعار و دثار خودنمود مدتہا آنجا بود و در ما بین یک بار بوطن باز گشت و چندے ماندہ و بازراہی آں طرف شد و برادر زادگانِ خود مسمی نور الحق و علاء الدین برائے تحصیلِ علم نیز ہمراہِ خود برد۔‘‘
(شاہ لعل صاحب مرحوم نے جو اس زمانہ میں حیات تھے ان کو غنیمت اور جوہرِ کامل سمجھا اور اپنے گھر میں ان کو جگہ دی اور ان کی خدمت میں طلبہ تحصیلِ علوم کے لیے حاضر ہونے لگے، اور شاہ مذکور کی مسجد میں انھوں نے درس دینا شروع کیا، اسی کے ساتھ شاہ صاحب سے استفادۂ باطنی بھی کرتے رہے یہاں تک کہ ان سے بیعت کرلی اور طریقۂ نقشبندیہ کے مطابق ان سے ذکر و فکر سیکھا اورمراقبہ و حبسِ دم اور اس طرح کے اشغال میں پوری توجہ سے منہمک اور مشغول ہوگئے ، مدتوں وہاں قیام کیا اور اس درمیان میں صرف ایک بار وطن مراجعت کی اور تھوڑا عرصہ رہ کر پھر وہ شاہ صاحب کے پاس واپس گئے اور اس بار اپنے بھتیجوں نور الحق و علاء الدین کو بھی تحصیلِ علم کے لئے اپنے ساتھ لیتے گئے۔)