بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی ست
اور
محمد عربی کا بروئے ہر دوسرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او
کاکوری کا مشہور سلسلہ علیہ قلندریہ جو اپنی وسیع المشربی و رواداری اور جذب و سرمستی کے لئے مشہور ہے، اس کے بعض نامور مشائخ کے حالات زندگی اور سوانح و واقعات میں ہمیں اس جگہ وہ رنگ صاف نظر آتا ہے جہاں خانوادہ علم اللہی کا اس کے ساتھ پیوند ہوا ہے اور دونوں سلسلے کسی ایک شخصیت میں جمع ہوگئے ہیں ، گویا ایک نور مستطیل ہے کہ جدھر سے گزرتا ہے اپنی روشنی چھوڑ جاتا ہے۔
حضرت شاہ محمدکاظم علی قلندر(م:۱۲۲۱ھ) کو جو اس سلسلے کے بہت عظیم المرتبت بزرگ گزرے ہیں ، شاہ لعل صاحب اور اس کے بعد شاہ ابو سعید صاحب (نبیرہ سید آیت اللہ بن سید شاہ علم اللہؒ) سے اجازت حاصل تھی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے خاندان اور سلسلہ کے بعض مروجہ رسوم و روایات کے خلاف انھوں نے اپنے فرزند ارجمند شاہ تراب علی قلندرؒ کی تعلیم و تربیت میں ان خلافِ شرع ، خلاف سنت اعمال کی سختی سے مخالفت کی جن کو اس عہد میں اور بعض سلسلوں اور خانوادوں میں معیوب و قبیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔
’’بہارستانِ تراب‘‘ کے مصنف نے شاہ تراب علی قلندر ؒ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے جو ابتدائی حالات قلمبند کئے ہیں اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’والد ماجد (یعنی شاہ کاظم علی قلندرؒ) دنیائے دنی کی حقارت، نوربصر کے دل میں راسخ کرتے، مرغن غذا، نفیس پوشاک، اور