شریعت کے کرلیتا ہے، چنانچہ شجاع الدولہ یہ سنتے ہی ساکت ہوگیا، دو جوان افغان جو بڑے زور آور اور دلاور تھے کہہ پڑے کہ کیا مجال ہے اس فقیر کی جو ہمارے بروت (مونچھیں ) کاٹ لے۔ یہ کہہ کر دونوں آپ کے حضور میں حاضر ہوئے۔بعد تھوڑی دیر کے آپ نے اس نرمی سے ان دونوں کو فہمائش کی کہ وہ دونوں از خود رفتہ ہوگئے، اور عرض کیا کہ جو حضرت فرماتے ہیں بسر و چشم منظور ہے، اسی وقت آپ نے اپنے دستِ مبارک سے دونوں جوانوں کی مونچھیں کاٹ ڈالیں ، اور موافقِ شریعت کردیں ، وہ دونوں رخصت ہو کر شجاع الدولہ کے پاس گئے تو شجاع الدولہ ان کی شریعت کے مطابق صورت دیکھ کر پوچھنے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہوا ، تم دونوں تو بڑے غرور سے گئے تھے، تب انھوں نے کہا کہ اے سلطان! جس وقت حضرت شاہ لعل صاحب نے نصیحت کرنا شروع کی یہ معلوم ہوتا تھا کہ دو شیر اپنے پنجے پھیلائے ہوئے کھڑے ہیں ، اگر ذرا سا بھی ہم خلافِ حکم کرتے ہیں تو فوراً جان سے مارڈالیں گے۔ یہ سن کر شجاع الدولہ نے خوف کھایا اور ملازمت سے محروم رہا۔‘‘(۱)
شاہ لعل صاحب اتباعِ سنت میں اپنے آباء و اجداد کے نقشِ قدم پر تھے اور یہی ان کا سب سے بڑا وصف تھا، اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں اور ان سے استفادہ باطنی کرنے والوں کو قدرتی طور پر سب سے پہلا پیغام یہی ملتا تھا کہ ؎
------------------------------
(۱) الاصول الثابتہ؛ ص:۱۴