متامل اور مستور الاحوال تھے،ان کے خاندان میں ملفوظات و مجالس کا رواج نہیں ، کہتے ہیں کہ یہ باتیں ان بزرگوں اور درویشوں کو سزاوار ہیں جنھوں نے واقعی دنیا چھوڑدی ہے، دیانت سے دور ہے کہ ہم اپنے کو بزرگ سمجھ کر ملفوظ سازی کریں ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’ان کے حالات میں مولوی عبد الکریم(۱)سے دریافت کرکے لکھتا ہوں ، لیکن ان سب کو جن کا ان اوراق میں تذکرہ ہے محض شریعت کی شمع اور آسمان حقیقت کا آفتاب سمجھنا چاہئے۔‘‘(۲)
حضرت شاہ لعل کے استغنا و بے نیازی، دنیا اور دولتِ دنیا کی بے وقعتی، اتباعِ سنت و عزیمت، قبولیت و تاثیر وقوت تسخیر کا اندازہ ذیل کے اس عجیب واقعہ سے ہوسکتا ہے جو مولانا محمد ادریس نگرامی مؤلف ’’الأصول الثابتۃ للفروع النابتۃ‘‘ نے تفصیل سے درج کیا ہے، اور ان ہی کے الفاظ میں نقل کیا جارہا ہے:
’’میں نے اپنے والد ماجد صاحب (مولانا شاہ محمد عبد العلی نگرامی(۳)سے سنا کہ جب شجاع الدولہ ‘ رائے بریلی آیا تو اس کو کمال شوق آپ کی قدم بوسی کا ہوا، لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کے بروت (مونچھیں ) بڑی ہیں ، اور حضرت شاہ لعلؒ کے حضور میں جو جاتا ہے اور خلافِ صورتِ پیغمبر ہوتا ہے اس کو ایسا اپنی زورِ ولایت سے سمجھاتے ہیں کہ وہ خود بخود اپنی صورت موافق
------------------------------
(۱) شیخ عبد الکریم جوراسی خلیفہ حضرت شاہ لعل، ان کا ذکر آگے آئیگا۔
(۲) بحرِ زخار (منتخب) ص:۸، مرتب کردہ: ڈاکٹر حکیم مولانا سید عبد العلی حسنیؒ(متوفی: ۱۳۸۱ھ)
(۳) مولانا شاہ عبد العلی نگرامی قاضی عبد الکریم جوراسی کے خلیفہ تھے، لیکن حضرت گلزار شاہ سے تکمیل سلوک کی، اس کے علاوہ ان کو حضرت شاہ پناہ عطا صاحب سلونی سے بھی اجازت و خلافت ہے، اتباعِ شریعت اور اجتناب عن البدعت میں بہت ممتاز تھے۔