ذوقِ عبادت اور خشیت وانابت کا وہ حال تھا جس کو سن کر صحابۂ کرام کی ایک جھلک نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے، مولانا سید نعمان مؤلف ’’اعلام الہدی‘‘ شہادت دیتے ہیں کہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ عشاء کو نماز میں کھڑے ہوئے اور کوئی خاص حالت و کیفیت ایسی طاری ہوئی کہ رات بھر اسی ہیئت پر کھڑے ہو کر سحر کردی، یہ لکھنے کے بعد مولانا سید نعمان کہتے ہیں کہ ان کی زندگی وہ تھی جو اس شعر میں بیان کی گئی ہے ؎
عاشقی راس سہ نشان است اے پسر
رنگ زرد، و آہ سرد، و چشمِ تر
ان کے چہرہ بشرہ سے یہ تینوں کیفیتیں صاف نمایاں تھیں ، اور بخدا! اس میں ذرا مبالغہ نہیں ہے۔(۱)اودھ کے علاقوں نیز بہرائچ، مانکپور، الہ آباد اور نواحِ دہلی کے سفر اکثر کرتے اور وہاں کے علماء و مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرتے، اولیاء اللہ کے مزارات و مقابر میں بھی تشریف لے جاتے، لیکن اپنے جانے کی کسی کو اطلاع نہ کرتے تھے، اس کی علامت صرف یہ ہوتی تھی کہ جب جماعت میں حاضر نہ ہوتے تو لوگ کہتے کہ’’از ما بگریخت‘‘ (ہم سے بھاگ گئے) اسی طرح برہان پور اور بھوپال کا سفر کیا، اور جب وہاں لوگوں کو کسی طرح آمد کی اطلاع ہوگئی اور ہجوم ہوا تو وہ جگہ بھی اسی طرح چھوڑدی۔
ان حضرات کے اس اخفائِ حال اور کم آمیزی کا ذکر کرتے ہوئے تذکرہ و سوانح کی مشہور و مقبول کتاب ’’بحرِ زخار‘‘ کے مصنف (جو شاہ لعل صاحب کے معاصر اور عبد اللہ خاں مرید شاہ لعل صاحب و مصنف ریاض الاولیاء کے دوست بھی ہیں ) ’’بحرِ زخار‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’مخفی نہ رہے کہ یہ حضرات کرامات و خوارق کے اظہار میں بہت
------------------------------
(۱) اعلام الہدی۔