محبت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ سید محمد حکم نے خاص ان کے لئے نحو کی ایک کتاب تصنیف فرمائی۔
درسیات و علوم سے فراغت کے بعد نسبت و معرفت اور یقین و احسان کی دولت حاصل کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی اور اپنے والد کی رہنمائی و تربیت میں سخت سے سخت مجاہدات سے گزر کر اس ’’آبِ حیات‘‘ تک پہنچے جو ہفت خواں سرکرنے اور نذرِ جاں پیش کرنے کے بعد بھی ملے تو منعم حقیقی کا احسان و انعام اور فضلِ محض ہے ؎
منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی
منت شناس ازوکہ بخدمت بداشتت
غریبوں ، بیماروں اور کمزوروں کی خدمت اس طرح لگ کر کی کہ ’’ابوالمساکین‘‘ لقب پڑگیا، مولانا سید نعمان (جو ان کے خلیفہ بھی ہیں ) ان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’مجاہدانہ زندگی، ریاضت و نفس کشی اور زہد و فیاضی کا یہ عالم تھا کہ اگر بُھنا ہوا سالن سامنے آتا تو اس میں پانی ڈال کر زیادہ کردیتے، کھاناربع معدہ سے زیادہ نہ کھاتے اور کبھی کبھی اس میں بھی ناغہ کردیتے، اور باقی کھانا فقراء و مساکین کو عنایت فرمادیتے، جاڑوں میں اکثر ایسا کرتے کہ اپنے اوڑھنے، بچھانے کا سامان (مثلاً رضائی لحاف وغیرہ) خانقاہ میں آنے والے مہمانوں کو دے آتے، اور صبح اندھیرے منھ اذان سے پہلے جا کر سب کو بیدار کرتے اور سب سامان لپیٹ اور باندھ کر خاموشی سے اپنے حجرہ میں لے آتے، تا کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے، آخر میں روئی کا سامان یہ سوچ کر چھوڑدیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو استعمال نہ فرمایا تھا، عشقِ نبوی اور غایتِ اتباعِ سنت میں چار پائی کا استعمال بھی ترک کردیا تھا اور زمین پر چٹائی یا پیال بچھا کر آرام فرماتے تھے۔(۱)
------------------------------
(۱) اعلام الہدی۔