خلافت کا تعلق ہے، ہندوستان کے مشہور مرکزِعلم اور حلقۂ درس ’’فرنگی محل‘‘ کے بعض نامور علماء بھی جو ان کے معاصر تھے ایک عرصہ ان کی خدمت میں رہ کر ان کے فیضِ صحبت و تربیت سے فیضیاب اور خلافت سے شرف یاب ہوئے، اسی طرح کاکوری کا مشہور سلسلہ نقشبندیہ اور بعض اکابر سلسلہ قلندریہ کی نسبت روحانی بھی ان ہی سے ہے۔
راقم سطور کے جد امجد مولانا حکیم سید عبد الحیؒ نے اپنے استاد حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے وہ الفاظ اپنے قلم سے سیرتِ علمیہ کے حاشیہ پر لکھے ہیں جو وہ شاہ لعل صاحب کے متعلق فرماتے تھے۔ اس شہادت کی اہمیت کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جو مولانا محمد نعیم فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتبار علمی و مرتبۂ روحانی سے واقف ہو، وہ لکھتے ہیں :
’’استادی مولانا محمد نعیم فرنگی محلی می فرمودند کہ ایں چنیں صاحب ورع و عزیمت و تشرع و تورع و فضل و کمالات و استقامت وکرامات دراں جزء زماں بجز حضرت ایشاں کسے برنخاستہ ہمچو مہر درخشاں بر تافت و عالمے را فیضیاب فرمود۔‘‘
(میرے استاد مولانا محمد نعیم فرنگی فرمایا کرتے تھے کہ ان جیسا صاحب ورع و عزیمت و تشرع و تورع، صاحبِ فضل و کمال و کرامت و استقامت اس عہد میں اور کوئی پیدا نہ ہوا ، مہرِ درخشاں کی طرح روشن ہوئے اور ایک عالم کو فیضیاب فرمایا)۔
بچپن سے جوانی تک اپنے والد سید محمد جی کی تربیت و صحبت میں رہے اور بہت تھوڑی مدت میں سلوک کے سارے منازل طے کر کے اپنے والد کے ترجمان و شارح اور حقیقی جانشین بنے، اور اولیاء متقدمین کا نام روشن کیا، اوائلِ عمر میں اپنے بڑے بھائی سید محمد حکم سے علومِ ظاہری کی تعلیم حاصل کی، استاد کی شفقت اور بھائی کی