کی نفرت پیدا ہو، فائدے سے خالی نہیں ۔
کتاب کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ اس کا پڑھنے والا یہ محسوس کرے کہ انسان کو اللہ تعالی نے کیسی عظیم اور عجیب و غریب صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور کیسے کیسے مقامات اور درجات اس کی زد اور دسترس میں ہیں ، اور اگر خدا کی توفیق شامل حال ہو اور وہ ایک دفعہ ہمت کرکے نفس کی بندش یا کششِ ثقل سے آزاد ہوجائے تو کیسے کیسے عالم، کیسی کیسی لذتیں بلکہ کیسی کیسی جنتیں اس دنیا ہی میں اس کی منتظر ہیں ؛ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الآخِرَۃِ (ان کے لیے دنیا میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی) اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک عارف اور حقیقت شناس نے فرمایا تھا: ’’لو علم الملوک ما نحن فیہ لقاتلونا بالسیوف‘‘ (اگر بادشاہوں کو خبر لگ جائے کہ ہم کس مزے میں ہیں تو (رشک و حسد سے) تلواریں لے کر ہمارے مقابلہ پر آجائیں )۔ اور اس میں ادنی تعجب و مبالغہ کی بات نہیں ، جب صرف مادی وسائل کو ترقی دے کر آدمی ہوا میں چڑیوں کی طرح اڑ سکتا ہے اور پانی میں مچھلیوں کی طرح تیر سکتا ہے اور ستاروں پر کمند ڈال سکتا ہے اور جب ایک انسان محض اپنے جسم کو ترقی دے کر مشق و ریاضت بہم پہنچا کر اور خود اعتمادی اور خود شناسی کے ذریعہ جسمانی شعبہ میں حیرت انگیز کمالات دکھا سکتا ہے اور نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے تو کیا یہ انسان اپنے دل اور روح کی صلاحیتوں اور مخفی طاقتوں کو بروئے کار لا کر ان مقامات تک نہیں پہنچ سکتا جن کے سامنے یہ سارے دنیاوی کمالات اور مادی ترقیات و عجائب بچوں کے کھیل یا مٹی کے گھروندوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔
حضرت سید علم اللہؒ کی سیرت سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا شناسی و خود شناسی کی بدولت ایک ظلوم و عاصی انسان کہاں سے کہاں پہنچتا ہے، کس طرح مٹی سے سونا بنتا ہے، ذرہ سے آفتاب بنتا ہے، کسی طرح اس دنیا میں رہ کر دنیا سے بے نیاز ہوتا ہے، کس طرح اس دنیا میں جنت کے مزے لوٹتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل پر خدا کی ’’نظر کرم‘‘ دیکھتا ہے اور اس کے انعامات، نوازشوں ، بشارتوں اور خوش خبریوں