تسلیمات، ہاتھ کے اشارہ سے سلام کرنے، سر جھکانے اور اس طرح کے تمام خلافِ شرع کاموں کے خلاف ہیں ، شاہزادہ اعظم شاہ نے بڑی خوش دلی کے ساتھ کہا کہ سلام علیک کرنا سنت ہے اور ایسے لوگ سرکار کے حق میں موجبِ برکت ہیں ،…اس کے بعد سید محمدنور وہاں تشریف لے گئے ، السلام علیکم کہہ کر شاہزادے سے ملاقات کی، ملازمت قبول کی، خلعتِ خاصہ حاصل کی، اور ۱۴؍ سال اس ملازمت میں گزارے، اس کے بعد ایک خواب کی بنا پر جس میں اعظم شاہ کے رفض کی وجہ سے اس کے زوال کی خبر دی گئی تھی ملازمت چھوڑ دی اور وطن مراجعت فرمائی۔
زہد و تقوی اور قناعت و تورع میں اپنے والد اور دادا کے نقشِ قدم پر تھے، شرم و حیا اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ چھپر ڈالنے والے مزدوروں کی طرف جو اکثر زانو کھولے رکھتے ہیں دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے، مزدور اور کاریگر بھی یہ بات جانتے تھے ، اس لئے جب ان کے آنے کا وقت ہوتا تو فوراً ستر کرلیتے، اہلِ ہوس کی صحبت و مجالست، سیر و تفریح اور لہو و لعب سے کچھ سروکار نہ تھا، اور ایسے لوگوں کے تحفے جو کھانے پینے سے متعلق ہوتے تھے قبول نہ فرماتے تھے، مشتبہ کھانے سے کلی اجتناب اور اکلِ حلال کا سخت اہتمام تھا، اوقات، تلاوت قرآن مجید، اورادِ ماثورہ او راشغال باطنیہ سے معمور رکھتے تھے۔
شجاعت وسخاوت، ایثار و قناعت، حفظ مراتب حقوق، صلۂ رحمی اور شفقت و محبت میں اسلاف کی یادگار تھے، اعزاء و ہمسایوں کے حقوق کا بڑا خیال رکھتے، سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت کرتے، غرباء کی تجہیز و تکفین میں بڑی امداد کرتے۔
غیبت، مبالغہ آرائی اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی اور اس کی تاب نہ لا سکتے تھے۔
آخری ایام میں اور بالخصوص وفات کے وقت نسبت حضور و یادداشت بڑی