عید کا خطبہ دے رہے تھے، یہ خبر ان کے کانوں میں پڑی لیکن کمالِ استقامت و سنجیدگی کے ساتھ انھوں نے خطبہ پورا کیا اور شہداء کے لئے دعائِ مغفرت کی، سید محمد احسن ان کا جنازہ لے کر والدہ ماجدہ کی خدمت میں لائے، ماں نے چہرہ پر سے کپڑا ہٹایا، شہید بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اللہ کے سپرد کردیا۔
دوسری طرف سید محمد احسن نے اپنے رفقاء اور ساتھیوں کے ساتھ ان سب کو قلعہ میں گھیر لیا اور یہ چاہا کہ اسی وقت ان کو کیفر کردار تک پہنچادیں ، لیکن یہ خیال کر کے کہ عم محترم سید محمد جیؒ بھی اپنے رفقاء کے ساتھ قلعہ میں تشریف رکھتے ہیں کہیں ان کو کئی ضرر نہ پہنچ جائے، ان سب کو امان دی اور قلعہ بدر کردیا، لیکن خونِ شہیداں بالآخر رنگ لایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا سارا قبیلہ اور آبادی جو شیرانہ ڈی کے نام سے موسوم تھی بالکل تباہ و برباد ہوگئی، نہ اس کا کوئی کھنڈر باقی ہے اور نہ کوئی نام لینے والا ہے ؎
دیدی کہ خونِ ناحق پروانہ شمع را
چنداں اماں نداد کہ شب را سحر کند
سید محمد احسن نے اس کے بعد دو سال تک شان و شوکت کے ساتھ اس علاقہ پر حکمرانی کی، راجہ موہن سنگھ کے ساتھ (جو بارہ ہزار سوار لے کر ان کے مقابلہ پر آیا تھا) ایک معرکہ میں زخمی ہوئے، سید شاہ علم اللہؒ کے نواسہ سید محمد اشرف، سید رحمت اللہ اور بہت سے دوسرے رفقاء و خدمتگار اس معرکہ میں شہید ہوئے ، سید محمد احسن کے پاس اس کے بعد معزولی کا پروانہ آگیا، یہ زمانہ شاہ عالم معظم شاہ بن عالم گیر کا تھا، وہ بادشاہ کے لشکر کی طرف روانہ ہوئے، بادشاہ حیدرآباد کے دورہ پر گیا ہوا تھا، انھوں نے برہان پور میں اقامت اختیار کی اور وہاں بخاری شریف کی سند بھی حاصل کی اور طالبانِ حق کی اصلاح و تربیت میں مشغول ہوگئے، شاہ عالم حیدرآباد سے واپس ہوئے تو ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور وہیں انتقال فرمایا۔