کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرت سید شاہ علم اللہ حسنیؒ (م: ۱۰۹۶ھ) کی زندگی سے (جن کا تذکرہ اس کتاب کا موضوع ہے) ہمیں پہلا سبق یہی ملتا ہے اور یہ وہ سبق ہے جس کو اس دورِ ہوس اور دورِ شکم میں پوری بلند آہنگی کے ساتھ اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ شاہ صاحبؒ کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت اور گویا ان کی سیرت کا عنوان‘ اتباعِ سنت بلکہ سنت سے عشق ہے، بدعت کی ہر قسم بلکہ اس کا سایہ بھی ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھا اور ایک چھوٹی سی چھوٹی سنت ان کے نزدیک بڑی بڑی ریاضتوں اور مجاہدوں سے کہیں افضل تھی، سنت کا شوق اور اہتمام بچپن سے ان کے خمیر میں تھا اور شاید ہی کوئی وقت ایسا گزرتا ہو کہ کوئی سنت ان سے ترک ہوجاتی ہو، یہاں تک کہ وہ لوگ جن پر ان کا کچھ سایہ پڑگیا سنت کے دلدادہ ہوگئے اور ان کے رنگ میں رنگ گئے، اور جہاں گئے اور جہاں رہے اسی رنگ پر قائم رہے، ان کی سیرت کے مطالعہ سے ہمارے دل میں سنت کی محبت اور عظمت بڑھتی ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کہ پیرویٔ سنت سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی دولت نہیں اور ایک چھوٹی سی چھوٹی سنت سے جو برکت اور ترقی حاصل ہوتی ہے وہ بڑے بڑے مجاہدوں ، ریاضتوں اور قربانیوں سے بھی ہاتھ نہیں آتی، ؎
مصلحت دید من آنست کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و خم طرۂ یارے گیرند
اس لئے ہماری بڑی بد نصیبی ہوگی اگر ہم اس آسان نبوی راستہ کو چھوڑ کر اس سے غفلت برت کر اپنی پسند اور اپنے ذوق سے دوسرے راستوں اور دوسرے طریقوں پر اپنی اصل قوت اور اصل توجہ مرکوز کردیں اور پیروئ سنت کا حصہ ہماری زندگی میں کم سے کم ہو، موجودہ دور میں سنت کا اہتمام (خاص دینی حلقوں میں بھی) جتنا کم ہوچکا ہے اور برابر کم ہو رہا ہے اور بدعات کا جتنا رواج ہے، اس کے پیشِ نظر ایسی چیزوں کی اشاعت یا ایسی کوئی کوشش جس سے لوگوں کے دلوں میں اتباعِ سنت کا شوق اور بدعت