میں شیرانیوں کے مشہور خاندان کی عمل داری تھی جو افغانی النسل تھے اور بڑے شورہ پشت لوگ تھے، جب سید محمد احسن نئے حاکم بن کر یہاں تشریف لائے تو شیرانیوں کو ان کا آنا بہت ناگوار ہوا اور انھوں نے قلعہ رائے بریلی میں قلعہ بند ہو کر اس کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور اندر اندر یہ منصوبہ بنایا کہ جب سید محمد احسن عید کی نماز پڑھنے جائیں تو ان کو شہید کر کے اپنی حکومت بحال کرلی جائے، سید محمد احسن کو ان کے ارادوں کا کچھ علم نہ تھا، انھوں نے اس مرتبہ اپنے برادر اصغر سید عظیم الدین کو اپنی جگہ عید گاہ بھیجا اور خود اپنے جد امجد سید شاہ علم اللہؒ کی مسجد میں ٹھہر گئے، عید گاہ کے خطیب اور قاضی شہر کو شیرانیوں کے ارادوں کا علم ہوگیا تھا اس لئے وہ نہیں آئے اور سید عظیم الدین نے شیخ عبد الواسع کو امامت کے لئے مقرر کیا، جب شیخ عبد الواسع امامت کے لئے بڑھے تو شیرانیوں کے اسلحہ بند دستہ نے جو اسی غرض سے آیا تھا، سید محمد احسن سمجھ کر ان کا راستہ روک لیا، انھوں نے کہا کہ ہم تو نماز کے لئے آئے ہیں ، آپ ہماری راہ میں کیوں مزاحم ہوتے ہیں ؟اس درمیان میں بات بڑھی اور ان لوگوں نے شمشیر اٹھالی، سید عظیم الدین نے جب صورتِ حال اس طرح خراب ہوتے دیکھی تو اپنے دوستوں اور ہمراہیوں سے یہ کہا کہ جس کا جی چاہے یہاں سے چلا جائے اور اپنے کو خطرہ میں نہ ڈالے، اس کے بعد شیرانیوں کی طرف بڑھے، ساتھیوں نے روکا اور کہا کہ اپنی جان خواہ مخواہ خطرہ میں کیوں ڈال رہے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں خدا سے ہمیشہ شہادت کی آرزو رکھتا تھا، اب جب کہ یہ موقع سامنے ہے میں اس سے روگردانی نہیں کروں گا، آخر کار وہ لوگ ان پرجھپٹ پڑے اور معرکہ آرائی شروع ہوگئی اور سید عظیم الدین، سید محمدجائسی اور دو ایک اور رفقاء ان ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوگئے، جس وقت سید عظیم الدین اور ان کے رفقاء کی شہادت کی خبر تکیہ شاہ علم اللہؒ میں پہنچی (جو شیرانیوں کے مرکز سے ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے) اس وقت ان کے بھائی سید محمد ضیاء منبر پر کھڑے ہوئے نمازِ