مولانا سید نعمان ‘ اعلام الہدی میں لکھتے ہیں کہ خانوادۂ علم اللّٰہی کے چند بچے اس زمانہ میں امیٹھی میں تعلیم حاصل کررہے تھے، ایک مرتبہ ملا جیونؒ کے عرس میں پہنچ گئے، وہاں محفلِ سماع گرم تھی، کسی نے مجلس میں کہا کہ حضرت سید صاحب (شاہ علم اللہؒ) کے فرزند یہاں موجود ہیں ، اور سماع نا پسند کرتے ہیں ، ان کے پاس ادب میں ہمیں سماع روک دینا چاہئے، مولانا عبد اللہ امیٹھوی نے (جو ملاجیون کے پوتے اور استادالہند ملا نظام الدین کے شاگرد تھے) کہا کہ طالب علم ہیں ، ان کے لئے اس اہتمام کی کیا ضرورت ؟ جب سید محمد صابر بیمار ہوئے اور ان کے صاحبزادہ سید محمد واضح دہلی سے امیٹھی ہوتے ہوئے رائے بریلی واپس ہوئے تو مولانا عبد اللہ کو (جو ان کے استاد بھی تھے) اپنے ہمراہ لیتے آئے، مولانا عبد اللہ راستہ میں بہلی سے گر گئے اور پیر میں اتنی سخت چوٹ آئی کہ بہت دن تک چلنے پھرنے سے معذور رہے، اس درمیان میں کئی مرتبہ سید محمد صابر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، انھوں نے کچھ عذر کردیا۔ایک دن مولانا سید محمد واضح ، مولانا سید محمد معین، شاہ ابو سعید صاحب اور سید محمد معتصم ایک وفد کی صورت میں حاضرِ خدمت ہوئے، سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ مولوی صاحب ملنے کے بہت مشتاق ہیں ، آپ ان کو ملنے کا موقع کیوں نہیں دیتے، فرمایا: عزیزو! میں کیا کروں ، حضرت جی (سید شاہ علم اللہؒ) اس واقعہ سے آزردہ ہیں ، اس کے بعد امیٹھی کے سماع کا وہ قصہ سنایا، جو ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا، یہ بھی فرمایا کہ پیر کی چوٹ بھی در اصل خدا کی طرف سے ایک تنبیہ تھی۔
خوش الحان اتنے تھے کہ جو بھی ان کی آواز سن لیتا بے قابو ہوجاتا، صاحب ’’اعلام الہدی‘‘ لکھتے ہیں :
’’در قرأت اقرأ زمان بودند و لہجہ فصیح و لحنے حزین داشتند کہ اربابِ ذوق بشنیدش بر جا نمی ماندند و عوام بہ رقت می آرند۔‘‘