سے مقابلہ کا موقع نہ مل سکا، امید ہے کہ جو اس کو پڑھے گا وہ صحت اور تحقیق کا خیال رکھے گا۔ جو اس کو پڑھے میں اس سے دعا کا امید وار ہوں اس لئے کہ بندہ گنہگار ہوں ، والسلام علی من اتبع الہدی،کاتب و مالکِ کتاب ہذا فقیر محمد نجم الہدی۔)
دوسرا نسخہ زیادہ صحیح ہے اور اس میں وہ غلطیاں نہیں ہیں ، یا نہ ہونے کے برابر ہیں جو اس نسخہ میں جا بجا ملتی ہیں ۔
اس نادر اور بیش قیمت کتاب کے جستہ جستہ اقتباسات یہاں پیش کئے جاتے ہیں ، اس سے ہم ان کے خیالات اور دلی جذبات کو خود ان کے الفاظ میں سمجھ سکیں گے۔
مشائخ نقشبندیہ کی مشہور اصطلاح خلوت در انجمن کی تشریح انھوں نے جس طرح کی ہے اس سے ان کی بلند نظری اور علوئے مرتبت کا اندازہ ہوتا ہے اور بہت سی وہ مشکلات حل ہو جاتی ہیں جو اس زمانہ کے سالکین و اہلِ حق کو پیش آتی ہیں ، یہ بات اس انداز میں وہی شخص کہہ سکتا ہے جو ان وادیوں سے گزر چکا ہو اور سب نشیب و فراز خوب پہچانتا ہو ؎
خوشتر آید آں کہ سرِ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
’’اے برادر! این ہم تحمل و تکلف در ابتداء و توسط است، در انتہا ازیں تحملات ہیچ در کار نیست ، در عین تفرقہ جمعیت است و در نفس غفلت حاضر اند، اینجا کسے گمان نبرد کہ تفرقہ و عدم در حق منتہی مطلقاً مساوی است لا، بلکہ مراد آنست کہ تفرقہ و عدم در نفس جمعیت باطنی او را برابر اند۔‘‘
(بھائی یہ سب تحمل اور تکلف ابتدا اور وسط میں ہے، انتہا میں ان