تحملات کی چنداں ضرورت نہیں ، اس وقت تو عین منتشار کے موقع پر سکون اور غفلت کے مواقع پر حضور نصیب ہوتا ہے اس جگہ کسی کو گمان نہ ہو کہ منتہی کیلئے تفرقہ و عدم تفرقہ مطلقاً برابر ہے ، ہر گز نہیں ، مراد صرف یہ ہے کہ اس کی جمعیت باطنی کے سامنے یہ دونوں چیزیں برابر ہیں ۔)
آگے لکھتے ہیں :
’’باید دانست کہ در بعض اوقات از تفرقہ چارہ نبود کہ حقوق خلق ادا باید کردی، پس تفرقہ ظاہر نیز در بعض اوقات مستحسن گشت، اما تفرقہ باطن در ہیچ وقتے از اوقات جائز نیست کہ آن خالص برائے حق است سبحانہ و تعالی، پس سہ حصہ از عباد مسلم برائے حق تعالیٰ شد، باطن بہ تمام، نصفے از ظاہر نیز، و نصف دیگر از ظاہر برائے ادائے حقوقِ خلق باقی ماند، اما در ادائے آں حقوق ہر گاہ امتثال اوامرِ حق سبحانہ و تعالی است، آں نصف دیگر ہم راجع بحق گشت سبحانہ، إلیہ یرجع الأمر کلہ فاعبدہ و توکل علیہ، و ما ربک بغافل عما تعملون۔‘‘
(جاننا چاہئے کہ بعض اوقات انتشار و تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا، اس لئے کہ حقوق خلق کی ادائیگی ضروری ہے، پس یہ ظاہری انتشار بھی بعض اوقات مستحسن اور موجب ثواب ہے، لیکن قلبی انتشار اور دل کا مختلف چیزوں میں بٹا رہنا اور اٹکا رہنا کسی وقت بھی جائز نہیں ، اس لئے کہ وہ خالص حق سبحانہ و تعالی کے لئے ہے، مسلم بندہ کی زندگی کے تین حصے حق تعالی کے لئے ہونے