ہیں ) سے آزاد ہو کر اپنے عمل سے یہ اعلان کرتے تھے کہ انسانیت صرف اچھا کھانے، اچھا پہننے اور اچھے مکان میں رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کی تکمیل قدر و شکر گزاری اور اطمینان کے ساتھ ہونی چاہئے، بچوں کی طرح اس کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا، فاقہ زدوں کی طرح اس پر گرنااور اس کو پا کر اپنے کو کھودینا انسان کے جوہر عالی اور اس کی بلند استعداد کی سخت نا قدری اور توہین ہے۔
یہ انسانی معیار جو خدا کے فضل سے ہر زمانہ میں اور ہر جگہ پائے جاتے تھے اس زمین میں خدا کی نشانی بن کر اور انسانوں کے جنگل میں پرچم کی طرح بلند ہو کر اس بات کی دعوت دیتے تھے کہ اپنے کو اس نفس کی غلامی اور اس شکم کی اسیری سے آزاد کرو جس کی وجہ سے خدا کی ایک مخلوق گائے بیل اور سور، کتّے کے ذلیل نام سے پکاری جاتی ہے اور جس کے سامنے صرف دو چیزیں ہوتی ہیں : اپنی خواہشات اور اپنا پیٹ۔
نفس پرستی اور شکم پرستی اور اس کے نتیجہ میں مادیت و حیوانیت کی تاریک گھٹاؤں نے جب کبھی کسی ملک اور معاشرہ یا کسی آبادی اور قبیلہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس وقت اللہ کے مخلص و مقبول بندوں اور عالی ہمت و بلند حوصلہ انسانوں نے دنیا کے رواج و دستور، انسانوں کے قیاس و تجربہ، رائج الوقت معلومات و مسلمات اور ہوا کے رخ کے خلاف ایک ایسے طرزِ زندگی اور ایسی سطح کا نمونہ پیش کیا جس میں خزف ریزوں اور ٹھیکروں اور روپیوں اور اشرفیوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا تھا، اور شاہ و گدا سب برابر ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ جو رویہ اور برتاؤ تھا وہ صرف اللہ کے حکم، شریعت کے فیصلے اور سنتِ نبویؐ کی روشنی و رہنمائی میں تھا۔
انسانیت کے ان اعلی نمونوں نے ( جو اس زمین کی برکت اور پوری انسانیت کی قابلِ فخر دولت ہیں ) اس نفس پرستی اور شکم کی بالا دستی اور حکمرانی پر ہمیشہ سخت ضرب لگائی اور یہ بتایا کہ کام و دہن کی لذت اور خواہشاتِ نفس کی تکمیل سے بڑھ کر ایک اور لذت ہے، جس کا مزہ چکھنے کے بعد آدمی ان حقیر اور فانی لذتوں کی طرف مڑ کر دیکھنا بھی نہیں چاہتا، البتہ اس کا مزہ چکھنے سے پہلے کچھ قربانی، ایثار اور صبر