طلبِ صادق رکھنے والوں ہی کو طریقت کی تعلیم فرماتے اور وہ بھی اخفاء و خاموشی کے ساتھ۔
زہد و قناعت اور دنیا سے بے رغبتی کا یہ حال تھا کہ سارے وسائل و اسباب کے باوجود پختہ مکان بھی نہ بنایا، جب کسی نے اس کی ترغیب دی تو ارشاد فرمایا کہ دنیا کی چند سانسیں ہیں ، چھپر میں گزرگئیں یا حویلی میں ، دنیا کی نا پائیدار تعمیر میں کچھ صرف کرنا اس کو ضائع کرنا ہے۔ ہوشیار آدمی کو چاہئے کہ اپنا روپیہ آخرت کی پائیدار عمارت کی تعمیر میں لگائے، کچا مکان بنایا اور جنگل کی لکڑیوں اور پتوں کا چھپر ڈال لیا اور عمدہ عمارتی لکڑی تک سے پرہیز کیا، مولانا حکیم سید فخر الدین مصنف ’’سیرت علمیہ‘‘ و ’’مہر جہاں تاب‘‘ نے ان کی زندگی کے اس عجیب رنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے خوب لکھا ہے، اور ان کی صحیح تصویر کھینچ دی ہے:
’’نان ایں جہاں خوردند و کارِ عقبی ساختند در لباس دنیا کار فقراء کردند و ہرچہ از دنیا یافتند بکار آخت باختند‘‘۔
(اس جہاں کی روٹی کھائی، اور آخرت کا کام بنایا، لباسِ دنیا میں فقراء کا کام کیا جو کچھ دنیا سے پایا آخرت پر لگایا)۔
نسبت باطنی اور یاد داشت میں ملکہ قوی حاصل تھا، اورادِ ماثورہ، نوافل اور ذکر و شغل کا پورا التزام و اہتمام تھا، او ر روپیے کی ریل پیل،آمد و خرچ اور ضیافت و مہمان نوازی اور ہمدردی و غم گساری کے کاموں اور مشغولیتوں کی وجہ سے اس کے حصہ میں کوئی کمی نہ تھی، مرج البحرین یلتقیان بینہما برزخ لا یبغیان۔
صاحب اعلام الہدی نے اپنی کتاب میں ان کے خوارق و کرامات کا بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ ان کی دنیا ان کے دین کا زینہ اور ان کی نجات کا سفینہ بن گئی اور وہ اس کے بحرِ زخار میں رہ کر بھی تر دامن نہ ہوئے،