لشکر شاہی کا مشاہرہ گاؤں او رجاگیریں ، اس فارغ البالی اور خوش حالی کے عہد میں کچھ معمولی بات نہ تھی، لیکن گزشتہ صفحات اس پر گواہ ہیں کہ اللہ کے بندے نے اس سای دولت کو ہمیشہ دوسروں پر صرف کیا اور اپنے لئے فقر و فاقہ اور سلوک و مجاہدہ کی راہ پسند کی اور دمِ واپسیں تک اس جادۂ استقامت پر قائم رہے۔
شاہ گردی کے زمانہ میں وطن میں قیام رہا، جب سلطنت کو استقرار نصیب ہوا تو لشکرِ شاہی تشریف لے گئے اور اپنے فرزند سید محمد سنا اور برادر زادہ سید محمد باقی کو بھی اپنی معیت میں رکھا، بادشاہ کا کوچ حیدرآباد کی طرف ہوا، سید محمد ہدی راستہ میں برہان پور کے قریب بیمار ہوئے، سید محمد سنا فرماتے ہیں کہ : ’’۱۹؍ ربیع الاول ۱۱۱۹ھ کو استحضار کی کیفیت ہوئی ، پالکی اسی وقت راستہ کے ایک کنارے پر رکھ دی گئی، اور کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے مالکِ حقیقی سے جا ملے، کہار ہندو تھے، ہم نے پسند نہیں کیا کہ جنازہ غیر مسلم لے چلیں ، چنانچہ پالکی میں بانس لگاکر بعض خدام اور ہم لوگوں نے اس کو خود برہان پور پہنچایا، میر محمد باقی، میر محمد فیاض، سید فیض اللہ گردیزی اور علی اصغر وغیرہ ہمارے ساتھ تھے، برہان پور میں ایک نقشبندی شیخ کی خانقاہ میں تدفین عمل میں آئی اور ایک سال تک وہیں مدفون رہے۔ میں لشکر کے ساتھ حیدرآباد چلا گیا، ایک سال کے بعد بعض اعزہ وطن سے آئے اور تابوت لے کر برہان پور سے وطن کو روانہ ہوئے، اس زمانہ میں ہندوستان میں تابوت کو مال و زر کی منتقلی کے لئے خوب استعمال کیا جارہا تھا اور اس کی وجہ سے قافلے اکثر خطرہ کی زد میں رہتے تھے اور ڈاکو اکثر اس دھوکہ میں تابوت کو تباہ و برباد کردیتے تھے او رآدمیوں کو مار ڈالتے تھے، اس تابوت کو لے جانے والے بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر ٹھہرتے اور اندیشہ محسوس کرتے تو اکثر سید محمد ہدیؒ خواب میں نظر آتے اور رحلت یا اقامت کے سلسلہ میں کچھ اشارہ فرماتے، چنانچہ ایک شب خواب میں دیکھا کہ تابوت کی طرف پُشت کئے اور ہاتھ میں تسبیح لئے